پہلی محبت کے لیے آخری نظم

sunrise

sunrise

آج کے بعد میرے گھر میں
کبھی شام نہیں آئی گی
آج کے بعد ہوا
کوئی پیغام نہیں لائے گی
نہ تمہاری یاد مجھے
رات بھر رلائے گی
آج سے پہلے عجب جانکنی میں
عمر گزری ہے
تیرے خیال سے کٹ گیا خزاں کا موسم
مجھے تکلیف تو بہت ہوئی
جب دل پر لکھا تمہارا نام
ایسے کھرچا کہ خود میری انگلیاں
لہو لہو ہیں تمام
اور تمہارے نام میں شامل وہ دو نقطے
دور۔۔۔۔۔۔۔ تک دل میں اُتر گئے تھے
بمشکل انگلیوں سے کھینچ کر نکالے گئے
اب یہ مت پوچھنا
اس ساری واردات کے بعد
کتنا نڈھال ہے دل
محبت میں حادثات کے بعد
بس اتنا جان لو
شکستہ دل کے کسی کونے سے
زندگی کی تمنا اُبھر رہی ہے
اداسی آہستہ آہستہ سہی
بکھر رہی ہے

امجد شیخ