آنکھوں میں رہا دل میں اُتر کر نہیں دیکھا

alone man walking on beach

alone man walking on beach

آنکھوں میں رہا دل میں اُتر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا

بے وقت اگر جائوں گا سب چونک پڑیں گے
اک عمر ہوئی دن میں کبھی گھر نہیں دیکھا

جس دن سے چلا ہوں مِری منزل پہ نظر ہے
آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا

یہ پھول مجھے کوئی وراثت میں ملے ہیں
تم نے مِرا کانٹوں بھرا بستر نہیں دیکھا

پتھر مجھے کہتا ہے مِرا چاہنے والا
میں موم ہوں اس نے مجھے چُھو کر نہیں دیکھا

بشیر بدر