آٹا بہت مہنگا ہوگیا ہے

imtiaz ali shakir

imtiaz ali shakir

بے روز گاری، مہنگائی ،دہشتگردی اور لاقانونیت نے میرے وطن میں ایسے ڈیرے ڈالے ہیں کہ غریب تو مہنگائی کا رونا پہلے بھی روتا ہی تھا لیکن اب امیر آدمی بھی اس کی زد میں آچکا ہے ۔ آج ہی کی بات کرلیتے ہیں صبح اخبار پکڑا تو سب سے پہلے جس خبر پر نظر پڑی وہ کچھ یوں ہے ”عوام کے صبر کاامتحان ،پٹرول ۔6.82،سی این جی 6.20روپے مہنگا کرنے کاپروانہ تیار” مہنگائی ،دہشتگردی،لوڈشیڈنگ،بے روز گاری،لاقانونیت اورناانصافی کی چکی میں پسی قوم کو اس سوچ نے پریشان کر رکھا ہے کہ آج اتنی مہنگائی ہے تو کل کیا بنے گا۔آج بجلی و گیس نہیں ملتے تو کل کیا ہوگا؟لیکن حکمران ہیں کہ مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ بے روز گاری اور دہشتگردی کے خاتمے پر توجہ دینے کی بجائے آئے دن مہنگائی کا نیا بم گرا رہے ہیں ۔ اور بیان جاری کرتے ہیں کہ ہم عوام دوست ،جمہوری حکمران ہیں ۔صرف بیانات سے کام چلا کر اپنے آپ کو بری ذمہ کررہے ۔بندہ پوچھے اخبار میں چھپے بیان سے کسی بے روز گار کو روزگار میسر آسکتا ہے؟؟کسی بھوکے کو پیٹ پھر کھانا مل سکتا ہے؟؟کسی بیمار کو میڈیکل کی سہولت میسر آسکتی ہے؟؟کسی ماں کو اس کا بیٹا جسے ٹار گٹ کلنگ کھا گئی ہوواپس مل سکتا ہے؟ عام آدمی اس لیے زیادہ پریشان ہے کہ آٹا بہت مہنگا ہوگیاجبکہ حکمران اپنی عیاشیوں میںمست ہیں ۔ دین اسلام، عام آدمی اور پاکستان کے بھلے کی بات توہم سب کرتے ہیںعام آدمی اور پاکستان کے حالات پرتجزیے بھی ہوتے ہیں اور تبصرے بھی بہت کیے جاتے ہیں پاکستان کے گلی کوچوں سے لے کر اسمبلی ہال اور خاص طور پر ٹی وی چینلز پر ہر وقت عام آدمی کی مشکلات مہنگائی لوڈشیڈنگ بے روز گاری پاکستان کی بگڑتی ہو ئی سیاسی معاشی واقتصادی حالت اور سب سے بڑھ کر دین اسلام کے بارے میں ہم لوگ اس قدر سنجیدہ ہوتے ہیں کے دیکھنے اور سننے والے کبھی سوچ ہی نہیں پاتے کے ہم یہ ساری باتیں کیمرے کے لیے یا سامنے کھڑے لوگو ں کو بے وقوف بنانے کے لیے کر تے ہیں۔

یہ ساری باتیں ایسے ہی ہیں جیسے ایک جوکر اپنا شو شروع ہونے سے پہلے میک اپ کرے اور شو ختم ہوتے ہی وہ سارا میک اپ دھوکر اپنے اصل روپ میں آجائے ٹھیک اسی طرح ہمارے ملک کے حکمران اپنی سیاست کو چار چاند لگانے کے لیے عام آدمی کے حالات زندگی کو ایسا چہرہ اور لب ولہجہ بنا کر بات کرتے ہیں جیسے وہ واقع ہی غریب کی مجبوریاں جانتے ہیںلیکن جو لوگ انڈے کی سفیدی اور انار کے جوس کا ناشتہ کرتے ہیںاور ان کو نہ انڈے کا اور نہ ہی انار کے ریٹ کا پتا ہو جن کے محلات میں دنیا بھرکی سہولتیں دستیاب ہوں خدمت کے لیے سو سو نوکر چاکر ہوںاور عمارتیں زلزلہ پروف ۔بم پروف ۔سیلاب پروف ہوں جن کے پاس درجنوں ذاتی گاڑیاںہوں مختصر جنہوں نے کبھی ضروریات زندگی خریدی ہی نہ ہوں وہ صرف ٹی وی شو کے لیے تیاری کرتے ہیں اور میڈیا رپورٹوں سے فائدہ اٹھا کر اپنے آپکو ہیرو ثابت کرتے ہیں۔ مگر افسوس انسانی تاریخ کا سب سے بڑا فتنہ مال و دولت ،جاگیر یں ،جائیدادیں ۔ طاقت۔ حکومت اور زیادہ سے زیادہ زندہ رہنے کی تمنا ہے اگر ہم اسلام کی روح سے دیکھیں تودین ہمیں کسی بھی قسم کی ہوس اور لالچ سے بچنے کا درس دیتا ہے۔

رہی بات سدا زندہ رہنے کی تمنا کی تو وہ کبھی بھی کسی کی بھی پوری نہ ہوئی ہے اور نہ ہی ہو گی موت اٹل حقیقت ہے یہ بات دنیا ہر مذہب اور ہر قوم جانتی ہے کسی کے پاس بھی موت کا علاج نہیں آج تک بڑے سے بڑا ڈاکٹر بڑے سے بڑا حکیم موت کا علاج نہیں کرپایا اور نہ ہی کبھی کوئی کر پائے گا صرف اللہ تعالیٰ ہی مرنے کے بعد زندہ کرے گا اور یہ بات ہم سب جانتے ہیں کے خواہ کوئی کتنا بھی دولت مند ہو موت سے نہیں بچ سکتا ایک نہ ایک دن موت آئے گی اور جب موت آ گئی تو دنیا کی کوئی بھی چیز اسے نہیں روک پاے گی نہ مال و دولت کام آئے گا نہ ہی کوئی رشتہ داریہ زندگی تو بس ایک آزمائش ہے سب کے لیے کوئی امیرہو یا غریب خالق کائنات سب کوآزماتا ہے کسی کو زیادہ مال دولت دے کر آزماتا ہے تو کسی کو کم دے کر ۔کسی کو حکومت اور طاقت دے کر آزماتا ہے تو کسی کو نہ دے کر اور کسی کو حکومت اور طاقت دینے کے بعد واپس لے کر آزماتا ہے۔

کسی کواولاد ۔دے کر آزماتا توکسی کو نہ دے کر اور کسی کو دینے کے بعد واپس لے کر آزماتا ہے یہاں تک کہ آتی جاتی سانس بھی آزمائش ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کوآزماتا بھی ہے اور آزمائشوں میں کامیاب ہونے کا راستہ بھی خود ہی بتاتا ہے میری مراد شریعت محمدی ۖ کا راستہ ہے۔ اور پھر مدد بھی فرماتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی خاص حکمت ہے کہ کسی کو بہت زیادہ عطا کرتا ہے کسی کودرمیانہ اور کسی کو بہت کم اگر اللہ تعالیٰ سب کو ایک جیسا عطا کردیتا تو سب کے سب ناشکرے ہو جاتے اب تو کچھ لوگ شکر کرنے والے بھی ہیں کیونکہ آج کے حالات میں زیادہ ترشکر صرف غریب آدمی ہی کرتا ہے امیرآدمی کا دولت کے نشے میں شکر کرنا تودورکی بات ہے اللہ تعالیٰ کو یاد بھی کم ہی کرتا ہے امیر آدمی اللہ سے اور زیادہ کی تمنا تو ضرور کرتا ہے لیکن شکر کم ہی کرتا ہے اس کے مقابلے میں میری صبح کا آغاز تازہ خبروں کے ساتھ۔ حکومت کا عوام پر ایک اور مہنگائی بم سے حملہ جان بچانے والی 20ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری ۔یہ فیصلہ وفاقی وزیرڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی صدارات میں ہونے والی ڈرگ پرائسنگ کمیٹی کی میٹنگ میں کیا گیاہے۔جن ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ان میں ، اوآر ایس،کف ریسٹ سیرپ،وٹامین اے،بی،سی اور ای کی حامل تمام ٹیبلٹس ،سیرولین سیرپ۔ایکس ٹیبلٹ،برونیکس سیرپ،بے بے نول سیرپ،ڈولٹی ڈراپس،سائنوڈاکس سیرپ،امیزول سپنشن،ایپی ڈوکس وغیرہ شامل ہیں۔

پٹرول6.82روپے’مٹی کاتیل 62پیسے فی لیٹر مہنگا،سی این جی کی قیمت بھی 5.71روپے فی کلوبڑھ گئی ۔لیکن آپ پریشان نہ ہوں حکومت صرف چیزوں کی قیمتیں زیادہ ہی نہیں کرتی بلکہ کم کرکے عوام دوستی کا ثبوت بھی دیتی ہے اس لیے حکومت نے مہنگائی بم کے ہاتھ یہ بھی خبر دی ہے کہ ڈیزل 1.75روپے سستا کردیا گیا ہے۔ قارئین اب بات وہاں سے شروع کرتے جہاں کل چھوڑی تھی۔ غریب آدمی صبح سے شام تک اللہ کو یاد کرتا ہے ۔جب گھر سے مزدوری کے لیے نکلتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے یا اللہ آج مجھے مزدوری مل جائے تاکہ شام کو اپنے بیوی بچوں کے لیے آٹا سبزی لے آئوں اور جب اسے کام مل جاتا ہے تووہ اور زیادہ شدت سے اللہ کا شکر ادا کرنا شروع کردیتا ہے اور سارا دن شکر ہی کرتا رہتا ہے کہ یا اللہ تیرا شکر ہے تونے مجھے رزق عطا کیا اور جب شام کو راشن لے کر گھر جاتا ہے تو اس کے بیوی بچے بھی شکر ادا کرتے ہیں۔غور طلب بات کہ جہاں اللہ تعالیٰ صرف تین سے چار سو روپے عطا کرتا ہے وہاں آٹھ ۔دس لوگ شکر ادا کرتے ہیں اور جہاں لاکھوں کرڑوں عطا کرتا ہے وہاں یہ منظر کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے دولت مندآدمی اللہ تعالیٰ سے اورزیادہ کی تمنا کے ساتھ ساتھ ہزاروں گلے شکوے تو کرتا ہے لیکن شکر کرنے کے لیے اس کے پاس وقت نہیں ہوتا ۔لیکن سب دولت مند ایک جیسے بھی نہیں ہوتے ان میں ایمان والے بھی ہوتے ہیںجو اللہ سے ڈرتے ہیں اور ہر سانس کے ساتھ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔

Flour

Flour

آج کے مہنگے ترین دور میں غریب مزدور کے لیے سب سے بڑی آزمائش آٹا ہے جو روزبروز مہنگا ہی ہوتا جارہا ہے ۔آٹا اس قدر مہنگا ہوچکا ہے کہ تین ،چار سو روپے کمانے والا مزدور اپنے خاندان کا پیٹ نہیں پال سکتا ۔ حد سے زیادہ غربت اور مہنگائی انسان سے اس کا ایمان تک چھین لیتی ہے ۔غربت کی حالت اپنا ایمان بچانا بہت بڑی آزمائش ہے ۔اس آزمائش میں وہ ہی پاس ہو سکتا ہے جس توکل اللہ تعالیٰ پر ہواور جو ہر مشکل میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا رہے اور اللہ کے دین کے مطابق زندگی بسر کرتا رہے ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بندوں کو شکر کرنے تاکیدکچھ اس طرح فرمائی ہے”اگر شکر ادا کرو گے تو تمھیں اور زیادہ دیاجائے گا(ابرٰھیم:7)اور خُدا ہی نے تم کوتہھاری مائوں کے شکم سے پیدا کیا کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے اوراس نے تم کوکان اور آنکھیں اور دل بخشے تاکہ تم شکرکرو”(النحل78)سورة البقرہ میں ارشاد فرمایا اورمیرا شکر کرواور میری نعمتوں کا کفر نہ کرو۔ انسان کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے اور لالچ سے بچنا چاہئے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زیادہ مال ودولت جمع کرنے اور ۔زیادہ جائیداد بنانے سے سخت منع فرمایا ہے مومن ان ساری چیزوں سے دور رہتا ہے چاہے کتنا بھی مشکل وقت ہو مومن اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتاکیونکہ اس کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے احکامات ہی سب کچھ ہوتے ہیں اورجس بات سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمادیا وہ بے شک بہت بری ہے اللہ تعالیٰ کا دین انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب کرتا ہے ایک دوسرے سے جوڑتا ہے۔

دنیا کا مال و متاانسان کے ہاتھوں انسان کو کٹواتا ہے دور کردیتا ہے کبھی پاس نہیں آنے دیتا۔اکثر جب انسان زیادہ دولت مند ہو جاتا ہے تو اپنے غریب ماں باپ اور بہن بھائیوں کو پہچانتا تک نہیں اور اپنی دولت ہی کو اپنا سب کچھ جان لیتا ہے مال و دولت کو انسانی رشتوںپر کبھی بھی ترجیح نہیں دی جا سکتی کیونکہ مال اور دولت دور جائیں تو کام آتے ہیں اور انسانی رشتے قریب آئیں تو کام آتے ہیں یہ تو سب جانتے ہیں کے دنیا کی کوئی بھی چیز خریدنے کے لیے دولت کی ضرورت پڑتی ہے تو بات صاف ہے کہ انسان کو جب بھی کسی چیز کی ضرورت ہو تودولت خرچ کرنی پڑتی ہے اورخرچ ہونے کا مطلب کسی دوسرے کو دے دینا جب تک ہماری دولت ہمارے پاس ہے تب تک ہمارے کام نہیں آسکتی ضرورت سے زیادہ دولت انسان کی سب سے بڑی دشمن ہے ایک زہریلے سانپ کی مانئد کبھی بھی ڈس سکتی دولت مند کو ہمیشہ اپنی دولت کی فکر ہی لگی رہتی ہے گھر میں پڑی ہو تو دولت مند کو چوری ڈکیتی کا ڈر ہوتا ہے اگر بنک میں رکھی ہو تو دولت مند ہر وقت یہ سوچتا رہتا ہے کہیں بنک بند نہ ہو جائے کہیں بنک والے بھاگ نہ جائیں اس بات کا فکر ہی رہتا ہے پھر بھی دور قدئم سے دور جدیدتک ہرطرف دولت کی چہل پہل ہے جسے دیکھو اسے دولت کمانے کی لگن ہے نہ اپنی خبر ہے نہ دنیا کی ہر شخص بس کسی نہ کسی طرح ساری دنیا کی دولت اپنے گھر لانا چاہتا ہے وہ بھی پل بھر میں جس کے گھر میں چار سال کا راشن پڑا ہے وہ بھی کہتا ہے بھوکے مر رہے ہیں کاروبار بند ہے مہنگائی بہت ہو گئی ہے ۔

آٹا بہت مہنگا ہوگیا ہے۔ہزاروں روپے روز کمانے والا کہتا ہے مارے گئے جوجتنا زیادہ کما رہا ہے وہ اتنا ہی زیادہ رونا رو رہا ہے ۔انسان جو بھی کرلے جب تک اللہ کا شکر کرنا نہیں سیکھتا تب تک پریشان ہی رہے گا کیونکہ انسان کا من کبھی بھی دنیا کی دولت سے بھر نہیں سکتا ۔لیکن یہ بات طے ہے کہ من بھرے نہ بھرے پیٹ بھرنے کے لیے آٹا بہت ضروری ہے۔غریب آدمی کو آٹا دستیاب نہ ہو اس کا زندہ رہنا بھی ممکن نہیں رہتا اور جہاں تک میرا علم ہے آٹا بہت مہنگا ہوگیا ہے۔

تحریر: امتیاز علی شاکر