آپا

mumtaz mufti

mumtaz mufti

جب کبھی بیٹھے بٹھائے، مجھے آپا یاد آتی ہے تو میری آنکھوں کے آگے چھوٹا سا بلوری دیا آ جاتا ہے جو نیم لو سے جل رہا ہو۔
مجھے یاد ہے کہ ایک رات ہم سب چپ چاپ باورچی خانے میں بیٹھے تھے۔ میں، آپا اور امی جان، کہ چھوٹا بدو بھاگتا ہوا آیا۔ ان دنوں بدو چھ سات سال کا ہو گا، کہنے لگا۔ امی جان! میں بھی باہ کرونگا۔
واہ ابھی سے؟ اماں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ پھر کہنے لگا۔ اچھا بدو تمہارا بیاہ آپا سے کر دیں؟
اونہوں، بدو نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
اماں کہنے لگیں۔ کیوں آپا کو کیا ہے؟
ہم تو چھاجو باجی سے باہ کرینگے۔ بدو نے آنکھیں چمکاتے ہوئے کہا۔

اماں نے آپا کیطرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور کہنے لگیں۔ کیوں دیکھو تو آپا کیسی اچھی ہیں۔
ہواں بتاؤ تو بھلا۔ اماں نے پوچھا۔ بدو نے آنکھیں اٹھا کر چاروں طرف دیکھا جیسے کچھ ڈھونڈ رہا ہو۔ پھر اسکی نگاہ چولہے پر آکر رکی، چولہے میں اپلے کا ایک جلا ہوا ٹکڑا پڑا تھا۔ بدو نے اسکی طرف اشارہ کیا اور بولا۔ ایسی، اس بات پر ہم سب دیر تک ہنستے رہے۔ اتنے میں تصدق بھائی آ گئے۔ اماں کہنے لگیں۔ تصدق بدو سے پوچھنا تو آپا کیسی ہیں؟ آپا نے تصدق بھائی کو آتے ہوئے دیکھا تو منہ موڑ کر یوں بیٹھ گئی جیسے ہنڈیا پکانے میں منہک ہو۔

ہاں تو کیسی ہے آپا بدو؟ وہ بولے۔ بتاؤں؟ بدو چلا اور اس نے اپلے کا ٹکڑا اٹھانے کیلئے ہاتھ بڑھایا۔ غالباً وہ اسے ہاتھ میں نہیں اٹھاتے، اس میں چنگاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ تو جلا ہوا ہے اماں! بدو نے بسورتے ہوئے کہا۔ اماں بولیں۔ میرے لال تمہیں معلوم نہیں اس کے اندر تو آگ ہے۔ اوپر سے دکھائی نہیں دیتی۔ بدو نے بھولے پن سے پوچھا۔ کیوں آپا اس میں آگ ہے۔ اسوقت آپا کے منہ پر ہلکی سے سرخی دوڑ گئی۔ میں کیا جانوں؟ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی اور پھنکنی اٹھا کر جلتی ہوئی آگ میں بے مصرف پھانکیں مارنے لگی۔

اب میں سمجھتی ہوں کہ آپا دل کی گہرائیوں میں جیتی تھی اور وہ گہرائیاں اتنی عمیق تھیں کہ بات ابھرتی بھی تو بھی نکل نہ سکتی۔ اس روز بدو نے کیسے پتے کی بات کہی تھی مگر میں کہا کرتی تھی۔ ” آپا تم تو بس بیٹھ رہتی ہو۔” اور وہ مسکرا کر کہتی۔ پگلی اور اپنے کام میں لگ جاتی۔ ویسے وہ سارا دن کام میں لگی رہتی تھی۔ ہر وقت کوئی اسے کسی نہ کسی کام کو کہہ دیتا اور ایک ہی وقت میں اسے کئی کام کرنے پڑ جاتے۔

ادھر بدو چیختا۔ آپا میرا دلیا۔ ادھر ابا گھورتے، سجادہ ابھی تک چائے کیوں نہیں بنی؟ بیچ میں اماں بول پڑتیں۔ بیٹا دھوبی کب سے باہر کھڑا ہے؟ اور آپا چپ چاپ سارے کاموں سے نپٹ لیتی۔ یہ تو میں خوب جانتی تھی مگر اسکے باوجود جانے کیوں اسے کام کرتے ہوئے دیکھ کر یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ وہ کام کر رہی ہے یا اتنا کام کرتی ہے۔ مجھے تو بس یہی معلوم تھا کہ وہ بیٹھی ہی رہتی ہے اور اسے ادھر ادھر گردن موڑنے میں بھی اتنی دیر لگتی ہے اور چلتی ہے تو چلتی ہوئی معلوم نہیں ہوتی۔ اسکے علاوہ میں نے آپا کو کبھی قہقہ مار کر ہنستے ہوئے نہیں سنا تھا۔ زیادہ سے زیادہ مسکرا دیا کرتی تھی اور بس۔ البتہ وہ مسکرایا اکثر کرتی تھی۔

جب وہ مسکراتی تو اسکے ہونٹ کھل جاتے اور آنکھیں بھیگ جاتیں۔ ہاں تو میں سمجھتی تھی کہ آپا چپکی بیٹھی ہی رہتی ہے۔ ذرا نہیں ہلتی اور بن چلے لڑھک کر یہاں سے وہاں پہنچ جاتی ہے جیسے کسی نے اسے دھکیل دیا ہو۔ اسکے برعکس ساحرہ کتنے مزے میں چلتی تھی جیسے دادرے کی تال پر ناچ رہی ہو اور اپنی خالی زاد بہن ساجو باجی کو چلتے دیکھ کر تو میں کبھی نہ اکتاتی۔ جی چاہتا تھا کہ باجی ہمیشہ میرے پاس رہے اور چلتی چلتی اسطرح گردن موڑ کر پنجم آواز میں کہے۔ ہیں جی! کیوں جی؟ اور اسکی کالی کالی آنکھوں کے گوشے مسکرانے لگیں۔ باجی کی بات بات مجھے کتنی پیاری تھی۔

ساحرہ اور ثریا ہمارے پڑوس میں رہتی تھیں۔ دن بھر انکا مکان انکے قہقہوں سے گونجتا رہتا جیسے کسی مندر میں گھنٹیاں بج رہی ہوں۔ بس میرا جی چاہتا تھا کہ انہی کے گھر جا رہوں۔ ہمارے گھر رکھا ہی کیا تھا۔ ایک بیٹھ رہنے والی آپا، ایک، یہ کرو، وہ کرو والی اماں اور دن بھر حقے میں گڑگڑ کرنے والے ابا۔

اس روز جب میں نے ابا کو امی سے کہتے ہوئے سنا سچ بات تو یہ ہے مجھے بے حد غصہ آیا۔ سجاہ کی ماں! معلوم ہوتا ہے ساحرہ کے گھر میں بہت سے برتن ہیں۔
کیوں؟ اماں پوچھنے لگیں۔
کہنے لگے۔ بس تمام دن برتن ہی بجتے رہتے ہیں اور یا قہقہے لگتے ہیں جیسے میلہ لگا ہو۔
اماں تنک کر بولیں۔ مجھے کیا معلوم۔ آپ تو بس لوگوں کے گھر کیطرف کان لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔
ابا کہنے لگے۔ افوہ میرا تو مطلب ہے کہ جہاں لڑکی جوان ہوئی برتن بجنے لگے۔ بازار کے اس موڑ تک خبر ہو جاتی ہے کہ فلاں گھر میں لڑکی جوان ہو چکی ہے۔ مگر دیکھو ناں ہماری سجادہ میں یہ بات نہیں۔ میں نے ابا کی بات سنی اور میرا دل کھولنے لگا۔ بڑی آئی ہے۔ سجادہ جی ہاں! اپنی بیٹی جو ہوئی۔ اسوقت میرا جی چاہتا تھا کہ جاکر باورچی خانے میں بیٹھی ہوئی آپا کا منہ چڑاؤں۔ اسی بات پر میں نے دن بھر کھانا نہ کھایا اور دل ہی دل میں کھولتی رہی۔

hukka

hukka

ابا جانتے ہی کیا ہیں۔ بس حقہ لیا اور گڑگڑ کر لیا یا زیادہ سے زیادہ کتاب کھول کر بیٹھ گئے اور گٹ مٹ گٹ مٹ کرنے لگے جیسے کوئی بھٹیاری مکی کے دانے بھون رہی ہو۔ سارے گھر میں لے دے کے صرف تصدق بھائی ہی تھے جو دلچسپ باتیں کیا کرتے تھے اور جب ابا گھر پر نہ ہوتے تو وہ بھاری آواز میں گایا بھی کرتے تھے۔ جانے وہ کون سا شعر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں
چپ چپ سے وہ بیٹھے ہیں آنکھوں میں نمی سی ہے
نازک سے نگاہوں میں نازک سا فسانہ ہے
آپا انہیں گاتے ہوئے سن کر کسی نہ کسی بات پر مسکرا دیتی اور کوئی بات نہ ہوئی تو وہ بدو کو ہلکا سا تھپڑ مار کر کہتی۔ بدو رو نا اور پھر آپ ہی بیٹھی مسکراتی رہتی۔

تصدق بھائی میرے پھوپھا کے بیٹے تھے انہیں ہمارے گھر آئے یہی دو ماہ ہوئے ہونگے۔ کالج میں پڑھتے تھے۔ پہلے تو وہ بورڈنگ میں رہا کرتے تھے پھر ایک دن جب پھوپھی آئی ہوئی تھی تو باتوں باتوں میں انکا ذکر چھڑ گیا۔ پھوپھی کہنے لگی بورڈنگ میںکھانے کا انتظام ٹھیک نہیں۔ لڑا آئے دن بیمار رہتا ہے۔ اماں اس بات پر خوب لڑیں۔ کہنے لگیں۔ اپنا گھر موجود ہے تو بورڈنگ میں پڑے رہنے کا مطلب؟ پھر ان دونوں میں بہت سے باتیں ہوئیں۔ اماں کی تو عادت ہے کہ اگلی پچھلی تمام باتیں لے بیٹھتی ہیں۔ غرضیکہ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ہفتے کیبعد تصدق بھائی بورڈنگ چھوڑ کر ہمارے ہاں آ ٹھہرے۔

تصدق بھائی مجھ سے اور بدو سے بڑی گپیں ہانکا کرتے تھے۔ انکی باتیں بے حد دلچسپ ہوتیں۔ بدو سے تو وہ دن بھر نہ اکتاتے۔ البتہ آپا سے وہ زیادہ باتیں نہ کرتے۔ کرتے بھی جیسےِ جب کبھی وہ آپا کے سامنے جاتے تو آپا کے دوپٹے کا پلو آپ ہی آپ سرک کر نیم گھونگھٹ سا بن جاتا اور آپا کی بھیگی بھیگی آنکھیں جب جھک جاتیں اور وہ کسی نہ کسی کام کی شدت سے مصروف دکھائی دیتی۔

اب مجھے خیال آتا ہے کہ آپا انکی باتیں غور سے سنا کرتی تھیں گو کہتی کچھ نہ تھی۔ بھائی صاحب بھی بدو سے آپا کے متعلق پوچھتے رہتے لیکن صرف اسی وقت جب وہ دونوں اکیلے ہوتے، پوچھتے۔
تمہاری آپا کیا کر رہی ہے؟
آپا؟ بدو لاپرواہی سے دہراتا۔ بیٹھی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ بلاؤں؟
بھائی صاحب گھبرا کر کہتے۔ نہیں نہیں۔ اچھا بدو آج تمہیں، یہ دیکھو اسطرف تمہیں دکھائیں۔
اور جب بدو کا دھیان ادھر ادھر ہو جاتا تو وہ مدھم آواز میں کہتے۔ ارے یار تم مفت کا ڈھنڈورا ہو۔
بدو چیخ اٹھتا ۔ کیا ہوں میں؟ اس پر وہ میز بجانے لگتے۔ ڈگمگ ڈگمگ ڈھنڈورا ہے دیکھا؟ جسے ڈھول بھی کہتے ہیں ڈگمگ ڈگمگ سمجھے؟ اور اکثر آپا آپا چلتے چلتے انکے دروازے پر رک ٹھہر جاتی اور انکی باتیں سنتی رہتی اور پھر چولہے میں ناچتے ہوئے شعلوں کیطرح جھومتیں۔ آپا کے ہونٹ یوں ہلتے گویا گاڑی ہو مگر الفاظ سنائی نہ دیتے۔ ایسے میں اگر اماں یا ابا باورچی خانے میں آ جاتے وہ ٹھٹھک کر یوں اپنا دوپٹہ، بال اور آنکھیں سنبھالتی گویا کسی بے تکلف محفل میں کوئی بیگانہ آ کھسا ہو۔

ایک دن میں، آپا اور اماں باہر صحن میں بیٹھی تھیں۔ اسوقت بھائی صاحب اندر اپنے کمرے میں بدو سے کہہ رہے تھے۔ میرے یار ہم تو اس سے بیاہ کرینگے جو ہم سے انگریزی میں باتیں کر سکے۔ کتابیں پڑھ سکے، شطرنج، کیرم اور چڑیا کھیل سکے۔ چڑیا جانتے ہو؟ وہ گول گول پروں والا گیند، بلے سے یوں ڈز، ٹن، ڈز اور سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہمیں مزیدار کھانے پکا کر کھلا سکے، سمجھے؟
بدو بولا، ہم تو چھاجو باجی سے بیاہ کرینگے۔
انہہ! بھائی صاحب کہنے لگے۔

cut nails

cut nails

بدو چیخنے لگے۔ میں جانتا ہوں تم آپ بیاہ کرو گے۔ ماں! اسوقت اماں نے مسکرا کر آپا کیطرف دیکھا مگر آپا اپنے پاؤں کے انگوٹھے کا ناخن توڑنے میں اسقدر مصروف تھی جیسے کچھ خبر ہی نہ ہو۔

اندر بھائی صاحب کہہ رہے تھے۔ واہ تمہاری آپا فرنی پکاتی ہے تو اس میں پوری طرح شکر بھی نہیں ڈالتی۔ بالکل پھیکی۔ آخ تھو۔
بدو نے کہا، ابا جو کہتے ہیں فرنی میں کم میٹھا ہونا چاہیے۔
تو وہ اپنے ابا کیلئے پکاتی ہے نا۔ ہمارے لیے تو نہیں!
میں کہوں آپا سے؟ بدو چیخا۔
بھائی چلائے۔ اوپگلا۔ ڈھنڈورا، لو تمہیں ڈھنڈورا پیٹ کر دکھائیں ۔ یہ دیکھو اسطرف ڈگمگ ڈگمگ۔ بدو پھر چلانے لگا۔ میں جانتا ہوں تم میز بجا رہے ہو نا؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں ہاں اسی طرح ڈھنڈورا پٹتا ہے نا۔ بھائی صاحب کہہ رہے تھے۔ کشتیوں میں، اچھا بدو تم نے کبھی کشتی لڑی ہے، آؤ ہم تم کشتی لڑیں۔ میں ہوں گاما اور تم بدو پہلوان۔ لو آؤ ٹھہرو، جب میں تین کہوں اور اسکے ساتھ ہی انہوں نے مدھم آواز میں کہا۔ ارے یار تمہاری دوستی تو مجھے بہت مہنگی پڑتی ہے۔

میرا خیال ہے آپا ہنسی نہ روک سکی اسلیے وہ اٹھ کر باورچی خانے میں چلی گئی۔ میرا تو ہنسی کے مارے دم نکلا جا رہا تھا اور اماں نے اپنے منہ میں دوپٹہ ٹھونس لیا تھا تاکہ آواز نہ نکلے۔

میں اور آپا دونوں اپنے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ بھائی صاحب آ گئے، کیا پڑھ رہی ہو جہنیا؟ انکے منہ سے جہنیا سن کر مجھے بڑی خوشی ہوتی تھی حالانکہ مجھے اپنے نام سے بے حد نفرت تھی۔ نورجہاں کیسا پرانا نام ہے۔ بولتے ہی منہ میں باسی روٹی کا مزہ آنے لگتا ہے۔ میں تو نورجہاں سن کر یوں محسوس کیا کرتی تھی جیسے کسی تاریخ کی کتاب کے بوسیدہ ورق سے کوئی بوڑھی اماں سونٹا ٹیکتی ہوئی آ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر بھائی صاحب کو نام بگاڑ کر اسے سنوار دینے میں کمال حاصل تھا۔ انکے منہ سے جہنیا سن کر مجھے اپنے نام سے کوئی شکایت نہ رہتی اور میں محسوس کرتی گویا ایران کی شہزادی ہوں۔ آپا کو وہ سجادہ سے سجدے کہا کرتے تھے مگر وہ تو بات تھی، جب آپا چھوٹی تھی۔ اب تو بھائی جان اسے سجدے نہ کہتے بلکہ اسکا پورا نام تک لینے سے گھبراتے تھے۔ خیر میں نے جواب دیدیا۔ سکول کا کام کر رہی ہوں۔
پوچھنے لگے۔ تم نے کوئی برنارڈ شا کی کتاب پڑھی ہے کیا؟
میں نے کہا۔ نہیں!
انہوں نے میرے اور آپا کے درمیان دیوار پر لٹکی ہوئی گھڑی کیطرف دیکھتے ہوئے کہا۔ تمہاری آپا نے تو ہارٹ بریک ہاؤس پڑھی ہو گی۔ وہ کنکھیوں سے آپا کیطرف دیکھ رہے تھے۔

آپا نے آنکھیں اٹھائے بغیر ہی سر ہلا دیا اور مدھم آواز میں کہا۔ نہیں! اور سویٹر بننے میں لگی رہی۔
بھائی جان بولے، اوہ کیا بتاؤں جہنیا کہ وہ کیا چیز ہے، نشہ ہے نشہ، خالص شہد، تم اسے ضرور پڑھو بالکل آسان ہے یعنی امتحان کیبعد ضرور پڑھنا۔میرے پاس پڑی ہے۔
میں نے کہا۔ ضرور پڑھوں گی۔

پھر پوچھنے لگے۔ میں کہتا ہوں تمہاری آپا نے میٹرک کیبعد پڑھنا کیوں چھوڑ دیا؟
میں نے چڑ کر کہا، مجھے کیا معلوم آپ خود ہی پوچھ لیجیے۔ حالانکہ مجھے اچھی طرح سے معلوم تھا کہ آپا نے کالج جانے سے کیوں انکار کیا تھا۔ کہتی تھی میرا تو کالج جانے کو جی نہیں چاہتا۔ وہاں لڑکیوں کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے گویا کوئی نمائش گاہ ہو۔ درسگاہ تو معلوم ہی نہیں ہوتی جیسے مطالعہ کے بہانے میلہ لگا ہو، مجھے آپا کی یہ بات بہت بری لگی تھی۔ میں جانتی تھی کہ وہ گھر میں بیٹھ رہنے کیلئے کالج جانا نہیں چاہتی۔ بڑی آئی نکتہ چین۔ اس کے علاوہ جب کبھی بھائی جان آپا کی بات کرتے تو میں خوامخواہ چڑ جاتی۔ آپا تو بات کا جواب تک نہیں دیتی اور یہ آپا آپا کر رہے ہیں اور پھر آپا کی بات مجھ سے پوچھنے کا مطلب؟ میں کیا ٹیلیفون تھی؟ خود آپا سے پوچھ لیتے اور آپا، بیٹھی ہوئی گم سم آپا، بھیگی بلی۔

شام کو ابا کھانے پر بیٹھے ہوئے چلا اٹھے۔ آج فیرنی میں اتنی شکر کیوں ہے؟ قند سے ہونٹ چپکے جاتے ہیں۔ سجادہ! سجادہ بیٹی کیا کھانڈ اتنی سستی ہو گئی ہے۔ ایک لقمہ نگلنا بھی مشکل ہے۔

شام آپا کی بھیگی بھیگی آنکھیں جھوم رہی تھیں۔ حالانکہ جب کبھی ابا جان خفا ہوتے تو آپا کا رنگ زرد پڑ جاتا مگر اسوقت اسکے گال تمتما رہے تھے، کہنے لگی۔ شاید زیادہ پڑ گئی ہو۔ یہ کہہ کر وہ تو باورچی خانے میں چلی گئی اور میں دانت پیس رہی تھی۔ شاید کیا خوب شاید۔

ادھر ابا بدستور بڑبڑا رہے تھے۔ چار پانچ دن سے دیکھ رہا ہوں کہ فیرنی میں قند بڑھتی جا رہی ہے۔ صحن میں اماں دوڑی دوڑی آئیں اور آتے ہی ابا پر برس پڑیں، جیسے انکی عادت ہے۔ آپ تو ناحق بگڑتے ہیں۔ آپ ہلکا میٹھا پسند کرتے ہیں تو کیا باقی لوگ بھی کم کھائیں؟ اللہ رکھے گھر میں جوان لڑکا ہے اسکا تو خیال کرنا چاہیے۔ ابا کو جان چھڑانی مشکل ہو گئی ، کہنے لگے۔ ارے یہ بات ہے مجھے بتا دے ہوتا میں کہتا ہوں سجادہ کی ماں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ دونوں کھسر پھسر کرنے لگے۔

آپا، ساحرہ کے گھر جانے کو تیار ہوئی تو میں بڑی حیران ہوئی۔ آپا اس سے ملنا تو کیا بات کرنا پسند نہیں کرتی تھی بلکہ اسکے نام پر ہی ناک بھوں چڑھایا کرتی تھی۔ میں نے خیال کیا ضرور کوئی بھید ہے اس بات میں، کبھی کبھار ساحرہ دیوار کیساتھ چارپائی کھڑی کر کے اس پر چڑھ کر ہماری طرف جھانکتی اور کسی نہ کسی بہانے سلسلہ گفتگو کو دراز کرنیکی کوشش کرتی تو آپا بڑی بیدلی سے دو ایک باتوں سے اسے ٹال دیتی۔ آپ ہی آپ بول اٹھی۔ ابھی تو اتنا کام پڑا ہے اور میں یہاں کھڑی ہوں۔ یہ کہہ کر وہ باورچی خانے میں جا بیٹھتی۔ خیر اسوقت تو میں چپ چاپ بیٹھی رہی مگر جب آپا لوٹ چکی تو کچھ دیر کیبعد چپکے سے میں بھی ساحرہ کے گھر جا پہنچی۔ باتوں ہی باتوں میں ذکر چھیڑ دیا۔ آج آپا آئی تھی؟
ساحرہ نے ناخن پالش لگاتے ہوئے کہا کہ ہاں کوئی کتاب منگوانے کہ کہہ گئی ہے نہ جانے کیا نام ہے اسکا ہاں! ہارٹ بریک ہاؤس۔

آپا اس کتاب کو مجھ سے چھپا کر دراز میں رکھتی تھی۔ مجھے کیا معلوم نہ تھا۔ رات کو وہ بار بار کبھی میری طرف اور کبھی گھڑی کیطرف دیکھتی رہتی۔ اسے یوں مضطرب دیکھ کر میں دو ایک انگڑائیاں لیتی اور پھر کتاب بند کر کے رضائی میں یوں پڑ جاتی جیسے مدت سے گہری نیند میں ڈوب چکی ہوں۔ جب اسے یقین ہو جاتا کہ میں سو چکی ہوں تو دراز کھول کر کتاب نکال لیتی اور اسے پڑھنا شروع کر دیتی۔

girl sleeping

girl sleeping

آخر ایکدن مجھ سے نہ رہا گیا۔ میں نے رضائی سے منہ نکال کر پوچھ ہی لیا۔ آپا یہ ہارٹ بریک ہاؤس کا مطلب کیا ہے۔ دل توڑنے والا گھر؟ اسکے کیا معنی ہوئے؟ آپا پہلے تو ٹھٹھک گئی پھر وہ سنبھل گئی، پھر وہ سنبھل کر اٹھی اور بیٹھ گئی مگر اس نے میری بات کا جواب نہ دیا۔ میں نے اسکی خاموشی سے جل کر کہا۔
اس لحاظ سے تو ہمارا گھر واقعی ہارٹ بریک ہے۔
کہنے لگی۔ میں کیا جانوں؟
میں نے اسے جلانے کا کہا۔ ہاں! ہماری آپا بھلا کیا جانے؟ میرا خیال ہے یہ بات ضرور اسے بری لگی کیونکہ اس نے کتاب رکھدی اور بتی بجھا کر سو گئی۔

ایکدن یونہی پھرتے پھرتے میں بھائی جان کے کمرے میں جا نکلی۔ پہلے تو بھائی جان ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔ پھر پوچھنے لگے۔
جہنیا اچھا یہ بتاؤ کیا تمہاری آپا کو فروٹ سلاد بنانا آتا ہے؟ میں نے کہا، میں کیا جانوں؟ جا کر آپا سے پوچھ لیجیے۔ ہنس کر کہنے لگے۔ آج کیا کسی سے لڑ کر آئی ہو۔ کیوں میں لڑاکا ہوں؟ میں نے کہا۔
بولے نہیں، ابھی تو لڑکی ہو شاید کسی دن لڑاکا ہو جاؤ۔ اس پر میری ہنسی نکل گئی۔ وہ کہنے لگے۔ دیکھو جہنیا مجھے لڑنا بے حد پسند ہے۔ میں تو ایسی لڑکی سے بیاہ کرونگا جو باقاعدہ صبح سے شام تک لڑ سکے۔ ذرا نہ اکتائے۔ جانے کیوں میں شرما گئی اور بات بدلنے کی خاطر پوچھا۔ فروٹ سلاد کیا ہوتا ہے بھائی جان؟
بولے۔ وہ بھی ہوتا ہے۔ سفید سفید، لال لال، کالا کالا، نیلا نیلا سا۔ میں انکی بات سن کر بہت ہنسی پھر کہنے لگی۔ مجھے وہ بیحد پسند ہے۔ یہاں تو جہنیا ہم فیرنی کھا کر اکتا گئے۔ میرا خیال ہے یہ آپ نے ضرور سن لی ہو گی کیونکہ اسی شام کو وہ باورچی خانے میں بیٹھی” نعمت خانہ ” پڑھ رہی تھی۔ اس دن کیبعد روز بلاناغہ وہ کھانے پکانے سے فارغ ہو کر فروٹ سلاد بنانے کی مشق کیا کرتی اور ہم میں کوئی اسکے پاس چلا جاتا تو جھٹ فروٹ سلاد کی کشتی چھپا دیتی۔ ایک روز آپا کو چھیڑنے کی خاطر میں نے بدو سے کہا۔ بدو بھلا بوجھو تو وہ کشتی جو آپا کے پیچھے پڑی ہے اس میں کیا ہے؟

بدو ہاتھ دھو کر آپا کے پیچھے پڑ گیا۔ حتیٰ کہ آپا کو وہ کشتی بدو کو دینی ہی پڑی۔ پھر میں نے بدو کو اور بھی چمکا دیا۔ میں نے کہا۔ بدو جاؤ، بھائی جان سے پوچھو اس کھانے کا کیا نام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بدو بھائی جان کے کمرے کیطرف جانے لگا تو آپا نے اٹھ کر وہ کشتی اس سے چھین لی اور میری طرف گھور کر دیکھا۔ اس روز پہلی مرتبہ آپا نے مجھے یوں گھورا تھا۔ اسی رات آپا شام ہی سے لیٹ گئی، مجھے صاف دکھائی دیتا تھا کہ وہ رضائی میں پڑی رو رہی ہے۔ اسوقت مجھے اپنی بات پر بہت افسوس ہوا۔ میرا جی چاہتا تھا کہ اٹھ کر آپا کے پاؤں پڑ جاؤں اور اسے خوب پیار کروں مگر میں ویسے ہی چپ چاپ بیٹھی رہی اور کتاب کا ایک لفظ تک نہ پڑھ سکی۔

انی دنوں میری خالہ زاد بہن ساجدہ جسے ہم سب ساجو باجی کہا کرتے تھے، میٹرک کا امتحان دینے ہمارے گھر آ ٹھہری۔ ساجو باجی کے آنے پر ہمارے گھر میں رونق ہو گئی۔ ہمارا گھر بھی قہقہوں سے گونج اٹھا۔ ساحرہ اور ثریا چارپائیوں پر کھڑی ہو کر باجی سے باتیں کرتی رہتیں۔ بدو چھاجو باجی، چھاجو باجی چیختا پھرتا اور کہتا۔ ہم تو چھاجو باجی سے باہ کرینگے۔

باجی کہتی۔ شکل تو دیکھو اپنی، پہلے منہ دھو آؤ۔ پھر وہ بھائی صاحب کیطرف یوں گردن موڑتی کہ کالی کالی آنکھوں کے گوشے مسکرانے لگتے اور پنجم تان میں پوچھتی۔ ہے نا بھئی جا آن کیو جی؟

باجی کے منہ سے ” بھئی جا آن” کچھ ایسا بھلا سنائی دیتا کہ میں خوشی سے پھولی نہ سماتی۔ اسکے برعکس جب کبھی آپا” بھائی صاحب” کہتی تو کیسا بھدا معلوم ہوتا۔ گویا وہ واقعی انہیں بھائی کہہ رہی ہو اور پھر ” صاحب” جیسے حلق میں کچھ پھنسا ہوا ہو مگر باجی ” صاحب” کی جگہ ” جا آن” کہہ کر اس سادے سے لفظ میں جان ڈال دیتی تھی۔ جا آن کی گونج میں بھائی دب جاتا اور یہ محسوس ہی نہ ہوتا کہ وہ انہیں بھائی کہہ رہی ہے۔

اسکے علاوہ ” بھائی جاآن” کہہ کر وہ اپنی کالی کالی چمکدار آنکھوں سے دیکھتی اور آنکھوں ہی آنکھوں میں مسکراتی تو سننے والے کو قطعی یہ گمان نہ ہوتا کہ اسے بھائی کہا گیا ہے۔ آپا کے ” بھائی صاحب” اور باجی کے ” بھائی جاآن” میں کتنا فرق تھا۔

باجی کے آنے پر آپا کا بیٹھ رہنا بالکل بیٹھ رہنا ہی رہ گیا۔ بدو نے بھائی جان سے کھیلنا چھوڑ دیا۔ وہ باجی کے گرد طواف کرتا رہتا اور باجی بھائی جان سے کچھ شطرنج کبھی کیرم کھیلتی۔

باجی کہتی۔ بھئی جاآن ایک بورڈ لگے گا” یا بھائی جان کی موجودگی میں بدو سے کہتے” کیوں میاں بدو! کوئی ہے جو ہم سے شطرنج میں پٹنا چاہتا ہو؟ باجی بول اٹھتی۔ آپا سے پوچھیے۔ بھائی جان کہتے۔ اور تم؟ باجی جھوٹ موٹ کی سوچ میں پڑ جاتی، چہرے پر سنجیدگی پیدا کر لیتی، بھنویں سمٹا لیتی اور تیوڑی چڑھا کر کھڑی رہتی پھر کہتی۔ انہہ مجھ سے آپ پٹ جائینگے۔ بھائی جان کھلکھلا کر ہنس پڑتے اور کہتے۔ کل جو پٹی تھیں بھول گئیں کیا؟ وہ جواب دیتی۔ میں نے کہا چلو بھئی جان کا لحاظ کرو۔ ورنہ دنیا کیا کہے گی کہ مجھ سے ہار گئے اور پھر یوں ہنستی جیسے گھنگھرو بج رہے ہوں۔

رات کو بھائی جان باورچی خانے میں ہی کھانا کھانے بیٹھ گئے۔ آپا چپ چاپ چولہے کے سامنے بیٹھی تھی۔ بدو چھاجو باجی چھاجو باجی کہتا ہوا، باجی کے دوپٹے کا پلو پکڑے اس کے آس پاس گھوم رہا تھا۔ باجی بھائی جان کو چھیڑ رہی تھی۔ کہتی تھی۔ بھئی جاآن تو صرف ساڑھے چھ پھلکے کھاتے ہیں۔ اسکے علاوہ فیرنی کی پلیٹ مل جائے تو قطعی مضائقہ نہیں۔ کریں بھی کیا۔ نہ کھائیں تو ممانی ناراض ہو جائیں۔ انہیں جو خوش رکھنا ہوا، ہے نہ بھائی جاآن۔ ہم سب اس بات پر خوب ہنسے۔ پھر باجی ادھر ادھر ٹہلنے لگی اور آپا کے پیچھے جا کھڑی ہوئی۔ آپا کے پیچھے فروٹ سلاد کشتی پڑی تھی۔ باجی نے ڈھکنا سرکا کر دیکھا اور کشتی کو اٹھا لیا۔ بیشتر اسکے کہ آپا کچھ کہہ سکے۔ باجی وہ کشتی بھائی جان کیطرف لے آئی۔ لیجیے بھائی جاآن اس نے آنکھوں میں ہنستے ہوئے کہا۔ آپ بھی کیا کہیں گے کہ ساجو باجی نے کبھی کچھ کھلایا ہی نہیں۔

fruit salad

fruit salad

بھائی جان نے دو تین چمچے منہ میں ٹھونس کر کہا۔” خدا کی قسم بہت اچھا بنا ہے، کس نے بنایا ہے؟ ساجو باجی نے آپا کیطرف کھنکھیوں سے دیکھا اور ہنستے ہوئے کہا۔ ساجو باجی نے اور کس نے بھئی جاآن کے لیے۔ بدو نے آپا کے منہ کیطرف غور سے دیکھا۔ آپا کا منہ لال ہو رہا تھا۔ بدو چلا اٹھا۔ میں بتاؤں بھائی جان؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپا نے بدو کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور اسے گود میں اٹھا کر باہر چلی گئی۔ باجی کے قہقہوں سے کمرہ گونج اٹھا اور
بدو کی بات آئی گئی ہو گئی۔ بھائی جان نے باجی کیطرف دیکھا۔ پھر جانے انہیں کیا ہوا۔ منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ آنکھیں باجی کے چہرے پر گڑ گئیں۔ جانے کیوں میں نے محسوس کیا جیسے کوئی زبردستی مجھے کمرے سے باہر گھسیٹ رہا ہو۔ میں باہر چلی آئی۔ باہر آپا، الگنی کے قریب کھڑی تھی۔ اندر بھائی صاحب نے مدھم آواز میں کچھ کہا۔ آپا نے کان سے دوپٹہ سرکا دیا۔ پھر باجی کی آواز آئی۔ چھوڑیے چھوڑیے۔ اور پھر خاموشی چھا گئی۔

اگلے دن ہم صحن میں بیٹھے تھے۔ اسوقت بھائی جان اپنے کمرے میں پڑھ رہے تھے۔ بدو بھی کہیں ادھر ادھر کھیل رہا تھا۔ باجی حسب معمول بھائی جان کے کمرے میں چلی گئی۔ کہنے لگی۔ آج ایک دندناتہ بورڈ کر دکھاؤں۔ کیا رائے ہے آپکی؟ ذ بھائی جان بولے۔ واہ یہاں سے کک لگاؤں تو جانے کہاں جا پڑو۔ غالباً انہوں نے باجی کیطرف زور سے پیر چلایا ہو گا۔ وہ بناوٹی غصے سے چلائی۔ واہ آپ تو ہمیشہ پیر ہی سے چھیڑتے ہیں۔ بھائی جان معا بول اٹھے، تو کیا ہاتھ سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خاموش۔ باجی چیختی۔ اسکے بھاگنے کی آواز آئی۔ ایک منٹ تک تو پکڑ دھکڑ سنائی دی۔ پھر خاموشی چھا گئی۔

اتنے میں کہیں سے بدو بھاگتا ہوا آیا کہنے لگا۔ آپا اندر بھائی جان سے کشتی لڑ رہی ہیں۔ چلو دکھاؤں تمہیں چلو بھی۔ وہ آپا کا بازو پکڑ کر گھسیٹنے لگا۔ آپا کا رنگ ہلدی کیطرح زرد ہو رہا تھا اور وہ بت بنی کھڑی تھی۔ بدو نے آپا کو چھوڑ دیا۔ کہنے لگا۔ اماں کہاں ہے؟ اور وہ ماں کے پاس جانے کیلئے دوڑا۔ آپا نے لپک کر اسے گود میں اٹھا لیا۔ آؤ تمہیں مٹھائی دوں۔ بدو بسورنے لگا۔ آپا بولیں۔ آؤ دیکھو تو کیسی اچھی مٹھائی ہے میرے پاس۔ اور اسے باورچی خانے میں لے گئی۔

اسی شام میں نے اپنی کتابوں کی الماری کھولی تو اس میں آپا کی ہارٹ بریک ہاؤس پڑی تھی۔ شاید آپا نے اسے وہاں رکھدیا ہو۔ میں حیران ہوئی کہ بات کیا ہے مگر آپا باورچی خانے میں چپ چاپ بیٹھی تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اسکے پیچھے فروٹ سلاد کی کشتی خالی پڑی تھی۔ البتہ آپا کے ہونٹ بھنچے ہوئے تھے۔

بھائی تصدق اور باجی کی شادی کے دو سال بعد ہمیں پہلی بار انکے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ اب باجی وہ باجی نہ تھی۔ اسکے وہ قہقہے بھی نہ تھے۔ اسکا رنگ زرد تھا اور ماتھے پر شکن چڑھی تھی۔ بھائی صاحب بھی چپ چاپ رہتے تھے۔ ایک شام اماں کے علاوہ ہم سب باورچی خانے میں بیٹھے تھے۔ بھائی کہنے لگے۔ بدو ساجو باجی سے بیاہ کروگے؟
” اونہہ! بدو نے کہا۔ ہم باہ کرینگے ہی نہیں۔
میں نے پوچھا۔ بھائی جان یاد ہے جب بدو کہا کرتا تھا۔ ہم تو چھاجو باجی سے باہ کرینگے۔ اماں نے پوچھا” آپا سے کیوں نہیں؟ تو کہنے لگا” بتاؤں آپا کیسی ہے؟ پھر چولہے میں جلے ہوئے اپلے کیطرف اشارہ کر کے کہنے لگا۔ ” ایسی” اور چھاجو باجی؟ میں نے بدو کیطرح بجلی کے روشن بلب کیطرف انگلی سے اشارہ کیا۔ ایسی، عین اسی وقت بجلی بجھ گئی اور کمرے میں انگروں کی روشنی کے سوا اندھیرا چھا گیا۔ ہاں یاد ہے! بھائی جان نے کہا۔ پھر جب باجی کسی کام کیلئے باہر چلی گئی تو بھائی کہنے لگے۔ ” نہ جانے اب بجلی کو کیا ہو گیا۔ جلتی بجھتی رہتی ہے۔ ” آپا چپ چاپ بیٹھی چولہے میں راکھ سے دبی ہوئی چنگاری کو کرید رہی تھی۔

Camp fire

Camp fire

بھائی جان نے مغموم سی آواز میں کہا،” اف کتنی سردی ہے۔” پھر اٹھ کر آپا کے قریب چولہے کے سامنے جا بیٹھے اور ان سلگتے ہوئے اپلوں سے آگ سینکنے لگے۔ بولے۔” ممانی سچ کہتی تھیں کہ ان جھلسے ہوئے اپلوں میں آگ دبی ہوتی ہے۔ اوپر سے نہیں دکھائی دیتی۔ کیوں سجدے؟ آپا پرے سرکنے لگی تو چھن سی آواز آئی جیسے کسی دبی ہوئی چنگاری پر پانی کی بوند پڑی ہو۔ بھائی جان منت بھری آواز میں کہنے لگے۔ ” اب اس چنگاری کو تو نہ بجھاؤ سجدے، دیکھو تو کتنی ٹھنڈ ہے۔

تحریر: ممتاز مفتی