اب آن ملو تو بہتر ہو

ab aan milo

ab aan milo

دل ہجر کے درد سے بوجھل ہے، اب آن ملو تو بہتر ہو
اس بات سے ہم کو کیا مطلب، یہ کیسے ہو یہ کیونکر ہو؟

اک بھیک کےدونوںکاسےہیں، اک پیاس کےدونوں پیاسےہیں
ہم کھیتی ہیں، تم بادل ہو، ہم ندیا ہیں تم ساگر ہو

یہ دل ہے کہ جلتے سینے میں، اک درد کا پھوڑا الھڑ سا
نہ گپت رہے نہ پھوٹ بہے، کوئی مرہم کوئی نشتر ہو

ہم سانجھ سمے کی چھایا ہیں، تم چڑھتی رات کے چندرماں
ہم جاتے ہیں، تم آتے ہو، پھر میل کی صورت کیونکر ہو

اب حسن کا رتبہ عالی ہے، اب حسن سے صحرا خالی ہے
چل بستی میں بنجارہ بن، چل نگری میں سوداگر ہو

جس چیز سے تجھ کو نسبت ہے، جس چیز کی تجھ کو چاہت ہے
وہ سونا ہے وہ ہیرا ہے، وہ ماٹی ہو یا کنکر ہو

اب انشا جی کو بلانا کیا، اب پیار کے دیپ جلانا کیا
جب دھوپ اور چھایا ایک سے ہوں، جب دن اور رات برابر ہو

وہ راتیں چاند کے ساتھ گئیں، وہ باتیں چاند کے ساتھ گئیں
اس سکھ کے سپنے کیا دیکھیں، جب دکھ کا سورج سر پر ہو

شیر محمد خان ( ابن انشا)