اتریں عجیب روشنیاں، رات خواب میں

light in night

light in night

اتریں عجیب روشنیاں، رات خواب میں
کیا کیا نہ عکس تیر رہے تھے سراب میں

کب سے ہیں ایک حرف پہ نظریں جمی ہوئی
وہ پڑھ رہا ہوں جو نہیں لکھا کتاب میں

پانی نہیں کہ اپنے ہی چہرے کو دیکھ لوں
منظر زمیں کے ڈھونڈتا ہوں ماہتاب میں

پھر تیرگی کے خواب سے چونکا ہے راستہ
پھر روشنی سی دوڑ گئی ہے سحاب میں

کب تک رہے گا روح پہ پیراہن بدن
کب تک ہوا اسیر رہے گی حباب میں

یوں آئینہ بدست ملی پربتوں کی برف
شرما کے دھوپ لوٹ گئی آفتاب میں

جینے کیساتھ موت کا ڈر ہے لگا ہوا
خشکی دکھائی دی ہے سمندر کو خواب میں

گزری ہے بار بار مرے سر سے موجِ خشک
اُبھرا ہوں ڈوب ڈوب کے تصویر آب میں

اک یاد ہے کہ چھین رہی ہے لبوں سے جام
اک عکس ہے کہ کانپ رہا ہے شراب میں

چوما ہے میرا نام لبِ سرخ نے شکیب
یا پھول رکھ دیا ہے کسی نے کتاب میں

شکیب جلالی