اداس راتیں ہیں خواب سارے اجڑ چکے ہیں

dream less sad nights

dream less sad nights

اداس راتیں ہیں خواب سارے اجڑ چکے ہیں
ہے آنکھ ویراں کہ سب نظارے اجڑ چکے ہیں

مری زمیں پہ گلوں کے چہرے جھلس گئے ہیں
مرے فلک کے وہ چاند تارے اجڑ چکے ہیں

جو میرے آنسو شمار کرتے جو پیار کرتے
وفا کے پیکر سبھی سہارے اجڑ چکے ہیں

اب آنکھ دریا میں کوئی طوفاں نہیں اٹھے گا
مری نگاہوں کے سب کنارے اجڑ چکے ہیں

تمہاری شوخی گئے دنوں کا حساب مانگے
تمہیں خبر ہے کہ غم کے مارے اجڑ چکے ہیں

جو بھید سینوں میں تھے کبھی بے اماں ہوئے ہیں
جو راز ہونٹوں پہ تھے ہمارے اجڑ چکے ہیں

یہ وقت بھی کھا گیا ہے کتنی محبتوں کو
قمر جواں تھے جو یار سارے اجڑ چکے ہیں

سید ارشاد قمر