اس قدر بھی تو نہ جذبات پہ قابو رکھو

Dasht-e-Kavir

Dasht-e-Kavir

اس قدر بھی تو نہ جذبات پہ قابو رکھو
تھک گئے ہو تو مرے کاندھے پہ بازو رکھو

بھولنے پائے نہ اُس دشت کو وحشت دل سے
شہر کے بیچ رہو باغ میں آہو رکھو

خشک ہو جائے گی روتے ہوئے صحرا کی طرح
کچھ بچا کر بھی تو اس آنکھ میں آنسو رکھو

روشنی ہو گی تو آ جائیگا رہرو دل کا
اسکی یادوں کے دیے طاق میں ہر سُو رکھو

یاد آئیگی تمہاری ہی سفر میں اسکو
اسکے رومال میں اِک اچھی سی خوشبو رکھو

اب وہ محبوب نہیں اپنا، مگر دوست تو ہے
اُس سے یہ ایک تعلق ہی بہر سُو رکھو
افتخار نسیم