افغان جنگ کے دس برس: امریکی اب زیادہ محفوظ ہیں، صدر اوباما

US Soldier

US Soldier

امریکہ کے صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ افغان جنگ کے آغاز کے دس برس  بعد امریکی شہری نسبتا زیادہ محفوظ ہیں۔

افغانستان  پر امریکی حملے کے 10 برس مکمل ہونے پر جمعہ کو جاری کیے گئے اپنے ایک بیان میں امریکی صدر نے افغانستان میں خدمات انجام دینے والوں، خصوصا جنگ میں اب تک ہلاک ہونے والے 1800 امریکی فوجیوں اور دیگر کئی افغان اور اتحادی سپاہیوں  کو خراجِ تحسین پیش کیا۔

بیان میں صدر اوباما نے کہا ہے کہ ایک مستحکم مقام پر موجود امریکہ، افغانستان اور عراق کی جنگوں کو “ذمہ دارانہ طریقے سے ختم” کر رہا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ القاعدہ کو شکست دینے کے “اتنا قریب پہلے کبھی ” نہیں پہنچا۔

گیارہ ستمبر 2001 کے دہشت گرد حملوں کے 26 روز بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے  افغانستان پر چڑھائی کردی تھی جس کا مقصد وہاں سے طالبان کے اقتدار کا خاتمہ اور ان کی پناہ میں موجود القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن  کو ٹھکانے لگانا تھا جسے امریکی حکام نے ان حملوں کا ذمہ دار ٹہرایا تھا۔

لیکن آج دس برس بعد طالبان کی جگہ اقتدار سنبھالنے والے افغانستان کے صدر حامد کرزئی کا  یہ کہنا ہے کہ ان کی حکومت   اور اس کے عالمی اتحادی  افغان عوام  کی حفاظت کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔

افغانستان پر امریکی حملے کے دس برس مکمل ہونے کے موقع پر معاصر ادارے ‘بی بی سی’ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں صدر کرزئی  نے موقف اختیار کیا کہ نیٹو، امریکہ اور پڑوسی ملک پاکستان کو افغان جنگ کے آغاز میں ہی طالبان کے محفوظ ٹھکانوں  کے خاتمے کو اپنا ہدف بنانا چاہیے تھا۔

افغان صدر نے اپنے اس الزام  کا اعادہ کیا  کہ طالبان کو بعض پاکستانی  عناصر کی حمایت حاصل ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان اس الزام کی تردید کرتا آیا ہے۔

امریکی فوج کے ریٹائرڈ جنرل اسٹینلے میک کرسٹل نے بھی افغان جنگ کے 10 برس مکمل ہونے پر منعقد کردہ ایک خصوصی تقریب سے خطاب میں کہا کہ افغانستان میں عمل درآمد کے منتظر کاموں میں سب سے مشکل وہاں ایک ایسی  قانونی حکومت کا قیام ہے جسے نہ صرف عام افغان باشندوں کا اعتماد حاصل ہو بلکہ وہ طالبان کے بہتر متبادل کا کردار ادا کرسکے۔

افغانستان میں تعینات عالمی افواج کی 2009 سے 2010 تک قیادت کرنے اور بعد ازاں ایک  متنازعہ مضمون لکھنے پر امریکی فوج سے فارغ کیے گئے جنرل میک کرسٹل  کا کہنا تھا کہ افغان جنگ افغانستان کی حالیہ تاریخ کے “ایک خوف زدہ کردینے  کی حد تک سادہ منظر نامے” میں تبدیل ہوچکی ہے۔

جنگ کے 10 سال مکمل ہونے پر نیٹو کا کہنا ہے کہ اس کی جانب سے افغانستان  کی سلامتی کی ذمہ داریاں مقامی افواج کو سونپنے کا عمل  شروع کردیا گیا ہے۔ اس عمل کا آغاز رواں برس کیا گیا تھا  اور 2014 میں اس کی تکمیل پر تمام غیر ملکی افواج کے افغانستان سے انخلا کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔

امریکی حملے کے 10 برس بعد آج افغانستان میں عالمی افواج کے ایک لاکھ 30 ہزار سے زائد فوجی موجود ہیں جن میں امریکیوں کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے۔

جمعہ  کو افغانستان پر امریکی حملے کے دس برس مکمل ہونے  پر کوئی عوامی تقریب یا احتجاج منعقد نہیں ہوا۔  تاہم ایک روز قبل دارالحکومت کابل میں سینکڑوں افغانیوں نے احتجاج کرتے ہوئے  اپنے ملک سے غیر ملکی افواج کے فوری انخلا کا مطالبہ کیا تھا۔