انصار عباسی

shah bano mir

shah bano mir

گزشتہ ماہ میں دفاعِ پاکستان میگزین مکمل کرنے میں مصروف رہی دھیان نہ تو ٹی وی چینلز پے تھا اور نہ ہی کسی بھی ویب سایٹ پر 6 ستمبر قریب آ رہا تھا اور خود کو خود ہی ہوم ورک دے رکھا تھا اس میگزین کوہر صورت مکمل کرنا تھا اسی دھن میں حسبِ سابق سب کچھ بھلا رکھا تھا خدا خدا کر کے میگزین مکمل ہوا پبلش ہوا تو اللہ کا شکر ادا کیا پھر فیس بک پر اور اردو لنک دی جذبہ پے اسکو پڑھنے والوں کی بڑہتی ہوئی تعداد نے سیروں خون بڑھا دیا۔

کچھ روز خود اپنے آپ کو چھٹی پے سمجھا آج جب ذرا ریلیکس ہوئی تو فیس بک پے لگنے والی ایک تصویر نے بار بار چونکا انصار عباسی پاکستان میڈیا کا قابل احترام نام جس کو ہمیشہ ہی کسی نہ کسی مسئلے پے حق گوئی کے ضِمن میں زیرِ عتاب دیکھا ہے مردِ مومن ہے ڈرتا کسی سے نہیں جان اس نے اللہ کو دینی ہے اس بات پے کامل یقین ہے دنیاوی منعفت کیلیئے ایمان کا سودا کرنے کو قطعا تیار نہیں ہوتا معاملی چیف جسٹس صاحب کی معزولی کا ہو یا پھر لال مسجد میں معصوم بچیوں کی شہادت کا معاملہ میمو اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کا ہو یا پھر میمو گیٹ کا پاکستان میں ایک کے بعد ایک بڑے طوفان آئے ان طوفانوں میں صحافت کے شعبے نے بھی کسی سے کم انعامات حاصل نہیں کئے۔

بڑے بڑے نامی گرامی صحافی حضرات ہیں جو ہمیشہ حکومتی اسکینڈلز کو رعایت دیتے ہوئیان کو الفاظ کے خوبصورت جامے میں ملبوس کر کے دلکش پیرائے میں عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں اور سادہ لوح عوام ہمیشہ کی طرح ان کی بھول بھلیاں جیسی گفتگو میں گھومتی پھرتی کچھ نہیں سمجھ سکتی اِور حسبِ روایت خود کوان پڑھ جاہل کہہ کر صبر شکر کر کے خاموش ہو کر اپنے اپنے کام دھندوں میں مصروف ہو جاتے ہیں لیکن اس انسان کا اسلوب سب سے جدا ہے بات کرتا ہے تو زبان کی پختگی انداز سے ظاہر ہوتی ہے ایک ایک بات پے دل یقین کرتا ہے اس انسان کوفحاشی کے خلاف شدید تنقید پے ملازمت سے نکال دیا گیا ہے آج یکجہتی کا اظہار فیس بک پے دیکھ کر یہی سمجھ آئی کہ حسبِ معمول عتاب زدہ لوگوں میں اس کا نام ہٹ لسٹ پر ہے لہذا ادارے کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے اسی پبلسٹی میں وجہ تسمیہ بھی تحریر تھی کہ میڈیا پے فحاشی کے خلاف بولنے پر اس کو ہٹا دیا گیا ہے ۔

مملکتِ پاکستان کامذہب اسلام ہو ہمارے روم روم میں اللہ کا نام نبی پاک کے احکامات رچے بسے ہوں اور اس ملک میں جدت پسندی کے نام پر ایسی لغو اور احمقانہ کہانیوں پر مبنی ڈرامے دکھائے جا رہے ہوں کہ جن کا دس بارہ سال پہلے تصور کرنا بھی محال تھا کہ عام پاکستانی متوسط طبقے کے گھرانے میں اس قسم کی کوئی واہیات سیریل یا سیریز دیکھی جا سکتی ہے لیکن شاباش ہیاس مفاہمتی عمل پر گامزن اقتدار پے قابض اس جماعت کو افہام و تفہیم کا شاندار مظاہرہ جو ان کے دورِ حکومت میں دیکھنے میں آیا ہے وہ شائد 65 پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں دیکھا گیا اس مفاہمتی پالیسی کے عمل کے تحت سب ایک دوسرے کے ساتھ اس ملک کے ہر ادارے کو لوٹنے کھسوٹنے میں مصروف ہیں ۔

مقصد صرف مال بنانا ہے طریقہ کوئی بھی ہو باقاعدہ ایک مافیا کی صورت سب مل جائیں سب کی سوچ سب کا مقصد صرف ایک مال بٹورنا ایسے پر آشوب دور میں حق و صداقت کا علمبردار کوئی دوسرا انصارعباسی ہو اس کو پاگل احمق جنونی ڈپریسڈ تنہائی پسند کہہ کر یہ مفاہمتی عمل والے بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن تخلیق کی صلاحیت از خود پیدا نہیں ہوتی یہ رب سوہنے کا کرم ہے جس کو چاہے عطا کر دے انصار عباسی اپنے آپ میں انجمن ہے
لکہتے رہے گر چہ حکایاتِ خونچکاں
ہر چند اس میں ہاتہ ہمارے قلم ہوئے
گزشتہ ایک مہینے سے میں ٹی وی پروگرامز دیکھ نہیں سکی اس لئے اس پکچر سے یہی اندازہ لگایا کہ میڈیا پے فحاشی کے خلاف اس نے پروگرام کیا ہوگا جس میں اس نے اپنے مخصوص منصفانہ انداز میں کڑی تنقید کی ہوگی اب جس چینل کو کچھ برس پہلے چیف جسٹس کا ساتھ دینے پر پھر حکومتی چینل کے ساتھ محاذ آرائی پر کروڑوں روپے کا نقصان ہو چکا ہو وہ کیسے اس حق گوئی کو برداشت کرلے ان کو کروڑوں کا نقصان جو ہوا وہ اب اشتہارات کے ذریعے ہی پورے کئے جائیں گے ان کی بے باکی ان کے لیے عظیم کاروباری نقصان کی صورت دکھائی دے رہی تھی کاروباری نقصان وہ بھی موجودہ نا ہموار معاشی دور میں کوئی بھی ادارہ برداشت نہیں کر سکتا لہذا آسان راستہ یہی تھا کہ اس زبان کو ہی خاموش کروادیا جائے۔

جو اپنی حد سے تجاوز کر کے عوام میں بیداری شعور لانے کی کوشش کر رہا ہے یہ فحاشی کیسے آئی جب ایک ٹی وی چینل تھا اس دور میں تفریحی پروگرامز کا بھی ایک حسن تھا وقار تھا پورا خاندان فاطمہ ثریا بجیا کے ڈرامے پوریانہماک سے دیکھتا تھا اس ڈرامے میں کھیل کھیل میں بڑے بزرگوں کا احترام بچوں سے شفقت مضبوط خاندانی مشترکہ نظام ہلکا پھلکا رومینس شرارتیں سب ہوتا تھا دوسری طرف شگوفے کی طرح کھلکھلاتا ہوا حسینہ معین کا کوئی بھی ڈرامہ 8 سے 9 بجے تک پاکستان کے ہر گھر کی پاکیزہ سی تفریح تھی نسیم حجازی کے تاریخی ناول پے مبنی ڈرامہ آخری چٹان ماضی کے پر اسرار گوشوں سے پردہ اٹھاتا تھا تو اسی طرح امجد اسلام امجد کا ڈرامہ قدیم روایتی پنجاب کا مخصوص دیہی ماحول اور اس کے اندر چھپی خامیاں اور خوبیاں پردہ پے نمایاں کرتا تھا ۔

اصغر ندیم سید ہو یا نور الہدی کے علاقائی ماحول میں گندھے ہوئے خوبصورت ڈرامیکا ہر کوئء منتظر ہوتا تھا مگر آجکل کی تیز رفتار دنیا نے وہ ٹھہرا وہ پرسکون تفریحی ڈرامے کہیں دور ملگجے اندھیرے میں روپوش کر دیے وہ تہذیب وہ ماحول وہ انداز گفتگو آجکل سب مفقود ہے ان ڈراموں میں تفریح کے ساتھ روایتی مذہبی تہوار کے خوبصورت رنگ بھی دیکھنے کو مل جاتے تھے ہمیں قناعت کا تقوی کا تحمل کا سادگی کا خوبصورت سبق اسی لئے دیا گیا تھا کہ اتنی ہی آسودگی آئے گی زندگی میں جتنی چادر سمیٹ کر رکھیں گے مسلمان کو فلسفہ ہی یہ دیا گیا تھا کہ یہ دنیا ایک آزمائش گاہ ہے جہاں تمہیں پھونک پھونک کر قدم قدم رکھنا ہے اور اس امتحان گاہ سے اپنے تدبر سے قوتِ برداشت سے پائے استقامت مین لغزش لائے بغیر کامیاب ہونا ہے اور اس کے بعد اگلا جہاں وہ دنیا جو ہمیشہ کیلیئے ہے ۔

تمہاری اصل منزل مادیت پرستی سے ہمیں اسی لئے منع کیا گیا کہ مادیت پسندی خواہشات کی طرف دھکیلتی ہیاور خواہشات کا بڑھنا بادشاہوں کو غلام بنا دیتا ہے مادیت پرستی معاشرے میں حرص ہوس کو رواج دیتی ہے خود غرضی لالچ کے فروغ کا باعث بنتی ہے بے سکونی بڑہا کر انسان کو اسی تگ و دو میں مصروف رکھتی ہے کہ بڑہنا ہے آگے اور آگے وہ تمام آسائشات حاصل کرنی ہیں جو اس کرہ ارض پے رب اللعالمین نے فراوانی سے عطا کر رکھی ہیں یہ ہوس یہ سوچ انسان کو ہراس کام پر مجبورکر دیتا ہے جو بے حیائی بے غیرتی بے حمیتی پے جا کر ختم ہوتا ہے ۔

ہمارے اسلاف نے زندگیوں کو سادہ بسر کیا اسی لئے ان کے تاریخی کارنامے آج بھی مشعلِ راہ ہیں گاندھی جیسا انسان جب دستور ہندوستان کی بات کرتا تھا تو بہترین نمونہ حضرت عمر کے طریقہ کار کو بتلاتا تھا بو بکر ہو تو خلیفہ وقت ہوتے ہوئے دور عام انداز میں بھوک سے نڈھال بیٹھے نظر آتے ہیں عمر کا دور ہو تو عوام فیصلہ دیتی ہے کہ ان کے اخراجات کا تعین کس انداز میں کیا جائے دو چادروں پے سر عام خلیف المومنین کو للکارا جاتا ہے یہ تھے ہمارے وہ اسلاف جو بیت المال میں موجود کوشبو سے گھبرا کے باہر کی طرف لپکتے ہیں مبادا روزِ محشر اللہ رب العزت اسی بات پے پکڑ نہ کر لے کہ تو نے وہاں خوشبو کیوں سونگھی ؟ سبحان اللہ دوسری طرف آج کے دور میں جو جتنا بڑا چور ہے لٹیرا ہے وہ اتنا ہی کامیاب ہے ۔

جس ملک کے وفاقی وزیرِ داخلہ کو سورت اخلاص جیسی مختصر ترین سورہ مبارکہ پھنی نہ آتی ہو وہاں ہمیں اور کیا توقع کرنی چاہیے؟پاکستان کوگزشتہ دہائی میں آمر کی آمرانہ پالیسیوں نے مصنوعی معیشت کی کامیابی دکھاتے ہوئے جس قسم کی سرمایہ کاری کو پاکستان میں فروغ دیا وہ شعبہ مواصلات تھا در پردہ تواس شعبے کو پاکستان میں اس لئے پھیلایا گیا کہ اس کے ذریعے خود ساختہ دہشت گردی پے قابو پانیاوردہشت گردوں کی سرکوبی میں مدد ملے گی لیکن وہ شعر ہے ناں کہ
تو نے تو اے رفیقِ جاں اور ہی گل کھِلا دیے
بخیہ گری کے شوق میں نئے زخم لگا دیے

تو اس تیز رفتار مواصلاتی نظام سے دہشت گرد تو شائد کم پکڑے گئے لیکن ماضی میں کلاشنکوف کلچر کی طرح پاکستان کے دقیانوسی معاشرے میں موبائل کلچر عام ہوگیا گھر گھر اس نئی افتاد کی ہنگامہ آرائی سے پریشان دکھائی دینے لگا گھر کھانے کو ہو یا نہ ہو لیکن بیلنس کیلیئے رقم پراسرارانداز میں نجانے کہاں سے بچیوں کے پاس پہنچ جاتی ہے پوری پوری رات کال کرنے کے سستے پیکج پاکستان میں کسی کاروباری مد میں تو کوئی فائدہ نہ دے سکے البتہ جوان بچوں کے مسائل خطرناک حد تک بڑہتے دیکھے گئے یہ تمام وہ”” محفوظ اقدامات”” تھے جو کامیاب معیشت کی صورت ہم پے ٹھونسے گئے گھر کے بزرگوں کوکمزورمعاشی حالت نے انہیں اس حد تک بے دست و پا کر دیا تھا کہ وہ کمزور سے احتجاج کے سوا منہ زور نسل کو کہتے ہوئے گھبراتے تھے ۔

آمر کا ایک عمل کلاشنکوف کلچر آج تک پاکستان اس کے منفی اثرات بھگت رہا ہے اسلحے کی دوڑ پاکستان میں اس انداز میں کئی دہائیوں سے جاری و ساری ہے کہ تمام حکومتی بلند وبانگ دعوے پانی پے تحریر کردہ تحریر ثابت ہوئے مشرف دور کے اس جدت پسند معاشرے کے ثمرات آج پک کر ہماری جھولیوں میں از خود گر رہے ہیں اس دور میں جس جدت پسندی کا آغاز کیا گیا تھا وہ آج اس نہج تک پہنچ گئی کہ غیر ملکی چینلز بھی شرمانے لگے ہیں ہماری قوم کی بڑی تعداد ان پڑھ ہے دیہات سے تعلق نہ بھی ہو تب بھی عام ناظر کی ذہنی نشو نما بہت حد تک محدود ہے وجہ اس کی تعلیمی اداروں سے دوری ہے یہی وجہ ہے اسکی سوچ محدود ہے۔

اس کی محدود سی مکمل دنیا ہے اکثریتی تعداد میں ہماری قوم ایسے ڈراموں کی عادی ہو رہی ہیں جن میں دکھائی جانیوالی دنیا افسانوی ہے جہاں خوبصورت ہیروئین ہے جس کے فراق میں کوئی خوبرو پرستان کا شہزادہ “” چارلس”” اس کی جستجو میں ہے رومینٹک ماحول دلفریب نظارے دھیمے انداز میں سرگوشیاں کرتے ہوئے ان کو دیکھتے ہوئے ناظر کسی اور ہی دنیا میں پہنچ جاتا ہے جہاں اپنی تشنہ خواہشات کی تکمیل ہوتی نظر آتی ہے یہ بظاہر بے ضرر سی کہانی ہے جو آدھ گھنٹے بعد ختم ہو جاتی ہے لیکن ان ڈراموں کے غیر حقیقی انداز اس حد تک متاثر کن ہوتے ہیں کہ نوجوان نسل اندھا دھند ان کی تقلید میں اچھے برے کی تمیز سے عاری ہوتی جا رہی ہے
حال پوچھتے ہو کیا میرے کاروبار کا
شیشے بیچتا ہوں میں اندھوں کے شہر میں

پی ٹی وی کے ماضی کے ڈرامے آج بھی پوری دنیا میں مکمل دلچسپی اور شوق سے دیکھے جاتے ہیں آج اتنی تیزی سے تبدیلی رونما ہوئی ہے کہ ہمارا اصل کہیں کھو گیا ہے ہماری سادگی ہمارے پہناوے جدت پسندی کی بھینٹ چڑھ گئے رشتوں کا تقدس احترام خوبصورت روایات اب کبھی کبھار ٹی وی کی ریٹنگ بڑھانے کیلیئے پیش کئے جاتے ہیں ورنہ تو وہی یورپین انداز میں ملبوس نازک اندام حسینائیں الپسرا بنی کسی اور ہی دنیا کی مخلوِق دکھائی دیتی ہیں ان جدید سوچ کے حامل کھیلوں میں انتہائی دیدہ دلیری سے بے باکی کی نئی داستانیں رقم کرتے ہوئے جو جو جملے بولے جاتے ہیں ایسے جملے ماضی میں شرم سے نگاہوں کو جھکانے کا باعث بنتے تھے۔

لیکن آج وہی الفاظ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ادا کئے جاتے ہیں اب اس کو جدید دور کی اہم ضرورت قرار دے کر ماحول کو بہت اداس اور مایوس کن قرار دے دیا جاتا ہے ایسی مایوسی سے نکلنے کیلیئے تھوڑا سی تبدیلی چاہیئے تاکہ ارد گرد بکھری مایوسی خوف نا امیدی کے تاثر کو قدرے کم کیا جا سکے اس مایوسی کو کم کرتے کرتے ہم نے اپنی اخلاقی روایات کو کم کر دیا کوئی انداز کسی کا لے لیا توکوئی طریقہ کسی کا اس قسم کی سوچ میں تبدیلی لائی گئی ہے کہ شلوار سوٹ میں شرٹ کی آستینیں ہی غائب ہیں دوپٹہ قصہ پارینہ بنتا جا رہا ہے اشاعتی اداروں کو اس بات کا غم نہیں کہ کیا کر رہے ہیں ۔

ان کے سرخ ہوتے چہرے اس بات کو لے کر زیادہ خوش ہیں کہ بنتِ حوا کی نمائش ان کے بینک اکانٹس بڑہاتی جا رہی ہے میڈیا پے ایک شعبہ ایسا ہے جن کا کام غیر جانبداری سے مکمل تجزیہ پیش کرنا ہے اس میں ان کا تجزیہ بے لاگ ہونا چاہیے تبھی ان کی شخصیت کا ان کے ہنر کا اصل مول ملے گا کچھ غیور باوقار مستحکم سوچ رکھنے والے غیر جانبدار صحافی حضرات ایسے بھی ہیں جن کی بات کی تائید انکے حریف بھی کرتے ہیں ایسے لوگ اپنی سچائی اپنی انا اپنی خودداری سے سب کیلیئے پریشانی کا باعث ضرور بنتے ہیں ان کا نام جہاں لیا جاتا ہے وہ بات کی ضمانت بن جاتا ہے اسی طرح انصار عالم میڈیا کا پراثر نام جو اپنے ادارے کی پہچان ہے
ہمارے ذہن پے چھائے نہیں حرص کے سائے
ہم جومحسوس کرتے ہیں وہی تحریرکرتے ہیں

سنا ہے میڈیا پے فحاشی کے بڑہتے ہوئے خطرناک رحجان پے پروگرام کرنے کی وجہ سیان کو ملازمت سے ادارے نے فارغ کر دیا ہے ظاہر ہے کوئی بھی ادارہ صرف اس بات کا خواہشمند ہوتا ہے اسکو وصول کیا ہو رہا ہے ہو سکتا ہے کہ انصارعباسی کے پروگرام کی ریٹنگ اچھی ہو لیکن یہ بات بھی صبحِ صادق کی طرح روشن ہے کہ کافر ادا حسینائیں ہوشربا بہترین تراش خراش کے ملبوسات میں توبہ شکن اداں کے ساتھ نمودار ہوتی ہیں تو اانصار عباسی کی سادہ سی شخصیت باوجود بہت تعلیم کے بہت صلاحیت کے ان کے سامنے پھیکی پڑ جاتی ہے کسی قوم کو زوال پزیر کرنا ہو تو اسکے جوانوں میں فحاشی پھیلا دو یہ مشہور قول ہے معاشرے شکست و ریخت کی ذمہ داری بلاشبہ میڈیا پے لاگو ہوتی ہے وہ معاشرے کا مضبوط ستون ہے اس انداز میں صرف ادارے کی تشہیر کیلیئے خواتین کا غیر معیاری تشہیری انداز اگر آج قابل توجہہ نہی سمجھا گیا اور ہر اس زبان کو خاموش کروا دیا گیا جو غیرت کا بھولا ہوا سبق قوم کو یاد دلانا چاہتی ہو تو یہ لمحہ فکریہ ہے برائی کو جہاں دیکھو اسے طاقت سے روکو اسکی ہمت نہ ہو تو زبان سے برا کہو اس کی طاقت نہ ہو تو کم سے کم درجہ یہ ہے کہ اسکو دل میں ہی برا سمجھو
اس میں فلسفہ سمجھا دیا گیا کہ برائی کو انسان اپنی غیرت کے حساب سے روکتا ہے
اول طاقت
دوئم زبان
سوئم دل

ضعیف ترین درجہ دل کا ہے ایک صحافی کی تلوار اسکی تحریر یا اس کی زبان ہے انصار عباسی کو ملازمت سے محروم کرنا اس بات کی دلالت ہے کہ ہمیں اور ہمارے معاشرے کو ادبی ثقافتی لحاظ سے برباد کیا جارہا ہے اس انسان کو سزا دے کر یہ مہر لگا دی گئی ہے کہ معیار اب صرف ایک ہے وہ ہے صرف اور صرف دل میں برا سمجھو
جس طرح برائی کرنے والا صرف برائی کیلیئے سوچتا ہے ویسے ہی اچھائی کرنے کا عادی اسی کے پھیلا کو سوچ میں رکھتا ہے انصار عباسی جیسے دلیر بہادر جاں جوکھم میں ڈالنے والے قلم کے اس جہادی کو ہمارا سلام ہے اس دورِ پر آشوب میں ان جیسے چند لوگ ہیں جو بتاتے ہیں کہ اللہ سبحان و تعالی نے واضح راستے متعین کردیے ہیں قدم ہمارے ہیں۔

جس سمت اٹھنا چاہیں ملازمت کا مسئلہ ان جیسے کہنہ مشق صحافی کیلیئے کبھی نہیں بنا لیکن افسوس اور تکلیف مجھ سمیت سب کو یہ ہے کہ آج ہم اس پستی میں گر گئے کہ کوئی مومن اس اسلامی ملک میں اللہ کا بھولا ہوا سبق یاد کروائے گا برے کاموں سے روکے گا احتجاج کرے گا ایمانداری سے اپنی صحافتی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے ضمیر کی آواز پے لب کشائی کریگا تو اس کا حال انصار عباسی جیسا کیا جائے گا؟ دیکھنا یہ ہے کہ عوامی بے حسی سیاسی مسائل کی طرح یہاں بھی ساکت دکھائی دے گی یا پھر اس قلم کے جہادی کا ساتھ دینے کیلیئے باہر نکلے گی؟

تحریر شاہ بانو میر

لکہتے رہے گر چہ حکایاتِ خونچکاں
ہر چند اس میں ہاتہ ہمارے قلم ہوئے