اُجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

destroy people

destroy people

اُجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر
حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر

کیا جانئے کیوں تیز ہوا سوچ میں گم ہے؟
خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اُڑا کر

اس شخص کے تم سے بھی مراسم تو ہوں گے
وہ جھوٹ نہ بولے گا مرے سامنے آکر

اب دستکیں دے گا تو کہاں اے غمِ احباب
میں نے تو کہا تھا کہ مرے دل میں رہا کر

ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر

وہ آج کی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے
ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گھرا کر

برہم نہ ہو کم فہمئی کوتہ نظراں پر۔۔۔۔۔ !
اے قامتِ فن اپنی بلندی کا گلا کر

اے دل تجھے دشمن کی بھی پہچان کہاں ہے؟
تو حلقئہ یاراں میں بھی محتاط رہا کر!

میں مر بھی چکا، مل بھی چکا موجِ ہوا میں
اب ریت کے سینے پہ مرا نام لکھا کر

پہلا سا کہاں اب مری رفتار کا عالم!
اے گردشِ دوراں ذرا تھم تھم کے چلا کر

اس رُت میں کہاں پھول کھلیں گے دلِ ناداں؟
زخموں کو ہی وابستئہ زنجیرِ صبا کر

اک روح کی فریاد نے چونکا دیا مجھ کو
تو اب تو مجھے جسم کے زنداں سے رہا کر

اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسن
دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر

محسن نقوی