اِک نئے دور کی بنیاد کو رکھا جائے

earth

earth

اِک نئے دور کی بنیاد کو رکھا جائے
دور ماں باپ سے اولاد کو رکھا جائے

شکوہ بے جا تو نہیں دنیا کے اس کمرے میں
کس طرح مختلف افراد کو رکھا جائے

شکل و صورت کے کھنڈر کی ہوئی تعمیر نئی
پر اب کہاں دلِ برباد کو رکھا جائے

آ تو جائیگا میرے دل میں مگر سوچتا ہوں
کیوں خرابے میں پری زاد کو رکھا جائے

اب اگر سُنتا نہیں کوئی تو پھر لکھ کر ہی
بند صندوق میں فریاد کو رکھا جائے

دَور ایسا ہے کہ سب ایک سے لگتے ہیں نسیم
اب الگ کیسے کسی یاد کو رکھا جائے

افتخار نسیم