اک روز کوئی تو سوچے گا

thought of alone man

thought of alone man

اک روز کوئی تو سوچے گا
اک روز کوئی تو سوچے گا

فرزانوں کی اس بستی میں
اک شخص تھا پاگل پاگل سا
پر باتیں ٹھیک ہی کہتا تھا
بارش کی طرح پر شور نہ تھا
دریا کی طرح چپ رہتا تھا
جن سے اسے پیار بلا کا تھا
طعنے بھی انہیں کے سہتا تھا

اک شخص تھا پاگل پاگل سا
پر باتیں ٹھیک ہی کہتا تھا
اک روز کوئی تو سوچے گا

دنیا نے اسے کچھ بھی نہ دیا
پر اس نے جگ کو پیار دیا
جاں روتے روتے کھو بیٹھا
دل ہنتے ہنستے ہار دیا
جو نظم لکھی بھرپور لکھی
جو شعر دیا شہکار دیا
کیوں جیتے جی درگور ہوا
کس چاہ پہ تن من وار دیا
تھا دشمن کون بچارے کا
کس رنج نے اس کو مار دیا

اک روز کوئی تو سوچے گا
اور پہروں بیٹھ کر روئے گا

اعتبار ساجد