ایک خواب میںافلاک سی دیکھی اترتی حوریں

Khawab

Khawab

ایک خواب میں افلاک سی دیکھی اترتی حوریں
ہر سمت سے آئی صدا خوش آمدید اے نازنیں

دنیا کے حسنِ خوش فسوں کا راز کب کس پر کھلا
اے خالقِ ارض و سما صد آفریں صد آفریں

پھولوں کے رنگیں پیرہن کلیوں کی نورانی پھبن
ہر باغ کا اپنا فسوں مسحور ہیں اس کے مکیں

نیلگوں بحروں میں موجوں کے سفینے ہیں رواں
دیکھیے ان کا سماں جب چاند کی چودہویں

عرش تک پھیلے ہیں بہتی کہکشائوں کے طلسم
پے بہ پے روز ازل سے چل رہی ہے ہر زمیں

وحشتوں کی عریاں دہشت جنگلوں میں الاماں
روئیں گے ہم بے بسی کے اندھی چشم خشمگیں

گوشت خوروں کی ہیں موجیں خون آشاموں کے سنگ
اشرف المخلوقیت کا ڈھول پٹتا ہے یہیں

اپنے جنگل کا شہنشاہ راندئہ درگاہ ہے
جسم ہے اس سے پریشاں روح ہے اس سے حزیں

ڈاکٹر سعادت سعید