ایک لڑکا

a boy

a boy

ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں
ایک میلے میں پہنچا ہمکتا ہوا
جی مچلتا تھا ایک ایک شے پر مگر
جیب خالی تھی کچھ مول لے نہ سکا
لوٹ آیا لیے حسرتیں سینکڑوں
ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں

خیر محرومیوں کے وہ دن تو گئے
آج میلہ لگا ہے اسی شان سے
آج چاہوں تو اک اک دکاں مول لوں
آج چاہوں تو سارا جہاں مول لوں
نارسائی کا اب جی میں دھڑکا کہاں؟
پر وہ چھوٹا سا، الھڑا سا لڑکا کہاں؟

شیر محمد خان(ابن انشا)