بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی

bahadur shah zafar

bahadur shah zafar

بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی

لے گیا چھین کر کون آج تیرا صبر و قرار
بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی

چشمِ قاتل مری دشمن تھی ہمیشہ لیکن
جیسے اب ہو گئی قاتل کبھی ایسی تو نہ تھی

ان کی آنکھوں نے خدا جانے کیا کیا جادو
کہ طبیعت میری مائل کبھی ایسی تو نہ تھی

عکس رُخ یار نے کس کی ہے تجھے چمکایا
تاب تجھ میں مہِ کامل کبھی ایسی تو نہ تھی

کیا سبب تو جو بگاڑتا ہے ظفر سے ہر بار
خو تیری حور شمائل کبھی ایسی تو نہ تھی

بہادر شاہ ظفر