بجلی چوری

Teesri Aankh - Badar Sarhadi

Teesri Aankh – Badar Sarhadi

بجلی چوری … بل نہیں دیتے عدالت…اوور بلنگ سیکٹری وزارت پانی …!؟

مجھے یہ علم ہے کہ اِس تحرہر کا بھی کوئی نتیجہ نہیں ہوگا، جیسا فیروز پور روڈ کی دوبارہ تعمیر سے عوام انتہائی مشکل میں کہ جنرل ہسپتال تک یو ٹرن ختم کر دیا ہے دور دراز سے لایا گیا مریض کیسے ہسپتال پہنچتا ہے یہ بپتا اُن منصوبہ سازوں اور پنجاب کے حکمرانوں تک نہیں پہنچ سکتی …البتہ اس سے میرے زہن کا بوجھ ہلکا ہو اور کسی اخبار کا کاغذ کالا ہو گا اور بس …

اکثر یہ خبریں بھی آتی ہیں کہ لائین لاسسز بہت ہے ،پھر بجلی چوری ،عوام کی طرف سے اوور بلنگ ،اور اب تو سیکٹرٹیری وزارت پانی و بجلی نے قائمہ کمیٹی میں زائد بلنگ تسلیم کی ہے ،اور عدات عظمٰے نے اپنے ریماکس میں کہا لوگ بل نہیںدیتے بجلی چوری ہوتی ہے مگر یہ خبر کبھی نہیں آئی کہ وہ لائین لاسسز اور نوری شدہ یونٹ کیونکر اور کیسے پورے ہوتے ہیں یا وہ…. ..خیر معزز قارئین ! آج یہی بتائیں گے کہ بجلی چوری تو ہوتی ہے پوری کیسے ہوتی زمہدار کون ،یہ تجربہ کا علم ہے کسی نصاب میں نہیں … .پھر یہ خبریں بھی تواترسے سنائی دیتی ہیں کہ ادرہ اربوں کے خسارہ میں حکومت قیمتوں میں اضافہ کرے اور پھر ہر ماہ قیمتوں اضافہ کیا جارہا ہے مگر پھر بھی کبھی یہ نوید نہیں دی کہ خسارہ پورا ہوأ …..معزز.قارئین آگے بڑھنے سے پہلے پنجاب کے ایک دہات میں پرسُو بنئیے کی کہانی سُنیں وہ کس طرح غریبوں کو لوٹتا تھاٍ .گاؤں میں پرسو بنئے کی چھوٹی سی دکان جس میں لون،تیل،گُڑ وغیرہ لئے بیٹھتا،گاؤں کے بڑے زمیندار کو تو کبھی اس دکان سے کچھ خریدنے کی ضرورت پیش نہیں آئی کے اُس کے مٹکوں میں سال بھر کا ہر قسم کا اناج ہوتا اور اگر کبھی نقد پیسوں کی ضرورت پیش آتی تو کوئی جنس بڑے ساہوکار کے پاس فروخت کرتا ،مگرغریب دسمبر ،میں اِس کے سب مٹکے خالی ہو جاتے اور آئندہ اگلی فصل کے لئے پرسُو بنئے سے ادھالینے پر مجبور ہاتا (جیسے ہماری حکومتیں ورلڈ بنک سے ادھار لینے پر مجبور ہو تیں…)اور پرسُو بنئے کا لوٹنے کا طریقہ رمضان آتا ہے لالہ جی یہ ایک آنے کا لون اور ایک آنے کا تیل اور ایک آنے کا گڑ بھی لالہ جی یہ پیسے بہی پر لکھ لیں اور اب پرسُو لکھتا ہے ایک آنے کا لون اور ایک آنہ لون والا ،ایک آنے کا گُڑ اور ایک آنا گُڑ والا ،ایک آنے کا تیل اور ایک آنا تیل والا ،امضان بیچارہ کہتا ہے ،لالہ جی یہ ایک آنے کا گُر اور ایک آنہ گُڑ والا یہ کیا ،تو جھٹ سے پرسُو کہتا ہے اوے رمجو،اوئے ایک آنے کا گُڑ اور ایک آنہ گُڑ والا اوئے گُڑ لیا ہے نہ اور کیا …

Electricity sector in Pakistan

Electricity sector in Pakistan

اب رمجو بیچارہ پرسو سے ادھار لینے پر مجبور ہے سر ہلا کر ٹھیک اے لالہ جی….اور ایک دن یہی پرسُو بنیا سیٹھ پرس رام بن گیا اور وہی چھوٹی سی لون تیل کی ہٹی بہت بڑے ہٹ میں تبدیل ہوگئی جیسے ہمارے آج کے ڈیپارٹمنٹل سٹور جبکہ ٤٧ ء میں ہمارے پاس یہ ہٹیاں بھی نہیں تھیں …ہمارے آج کے یہ ادارے خواہ سرکاری یا نجی پرسُو کے طریقہ وادات کے اصول پر عوام کو لوٹ رہے ہیں،اس وقت میرا موضوع بجلی اور بل کے ذریعہ بے بس عوام کو انتہائی بیدردی سے لوٹا جارہا…1997ء سے پہلے بھی بل میں چند کالم تھے ،ایک روپیہ بجلی کا اور دو روپئے بجلی والے ،تب ایک کالم ایسا ہی لکھا تب کوئی شہری ریلیف کے لئے ہائی کورٹ میں گیا اورپھر واپڈا نے وہ تمام ”والے”جملہ قیمت میں ضم کر دئے آج بجلی کا بل دیکھیں تو اُس میں ایک کالم میں لکھا ہے جملہ قیمت بجلی جس پر ”سٹار”لگا ہے لیکن صارف جاننے سے قاصر ہے کہ جملہ قیمت سے کیا مراد ہے….. در اصل وہ تمام جگا ٹکسسز اِس میں ضم کر دئے گئے ہیں اور آج اپنا بل دیکھیں اُس میں ایسے ہی 9،کالم ہیں پہلے کالم میںمحصول بجلی ،دوسر ا جنرل سیلز ٹیکس،تیسرا،نیلم جہلم سرچارج،،چوتھا،انکم ٹیکس ،پانچواں،قیمت ایندھن تصحیح ،چٹھا،ٹی وی فیس،اور ساتواں،سر چارج،اب یہ سرچاج کیسا صارف کو علم نہیں ،یہ وہی پرسو والا ایک روپیہ بجلی کا اور ایک بجلی والا اب ہر قالم میں لکھی گئی رقم کو ”والا ” پڑھ لیں ، اب یہ بجلی چوری کرنے والے اورکرانے والے باہر سے نہیں..

اس کی کہانی کچھ اِس طرح ہے کہ لائین مین اور میٹر ریڈر سے چل کر ایس ڈی او ،اور اوپر تک سب اِس میں کسی نہ کسی حوالے سے ملوث ہوتے ہیں ..اور چوری کا خمیازہ وہ غریب بھگتتے ہیں جو دیانت داری سے بل ادا کرتے ہیں . اور اب اِس چوری کے بارے میں بڑے بڑے قیمتی اشتہارات اخبارات اور ٹی وی پر دئے جاتے ہیں انہیں بھی یہ علم ہے جو یہ کہتا ہے بجلی چوری یا لائن لاسز ایسے سفید ہاتھی کو عوام پر مسلط رہنے کا کوئی حق نہیں اُسے فی الفور مستعفی ہو جانا چاہئے اگر وہ از خود نہیں جاتا تو پھر قائمہ کمیٹی اُسے گھر کا راستہ دکھائے ….مگر کیا ایسا ہو سکتا ہے….. ؟،ا جس علاقے میں میری رہائش ہے یہاں اکثریت غریبوں کی ہے اور سب ڈویژن صوفیہ آباد کوٹ لکھپت، میں تقریباً انیس ہزار میٹر بتائے جاتے ہیں ان میں محض چند خوش قسمت ہوںگے جن کے بل میں زائد یونٹ نہیں لکھیں جاتے ورنہ ہر بل میں کم از کم سو،اور دوسو، زیادہ میٹر ریڈر کی صوابدید کے کتنے زائدیونٹ درج کرتا،کیوں ؟تاکہ چوری شدہ یونٹ جنہیں ادارہ لائین لاسز بھی کہتا پورے کئے جائیں،یہاں آج بھی کُنڈیاں ڈال کرکھلے عام بجلی چوری کی جاتی اور یہ ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں ،.جو زائد یونٹ درج کئے جاتے ہیں انہیں کوئی پکڑ نہیں سکتا…یہ پہلا موقع ہے سرکاری سطح پر زائد بلنگ کو تسلیم کیا گیا، جو تکنیکی مہارت کی صفائی سے عوام کی طرف منتقل کئے جاتے ہیں ہے ،کم از کم میں نے زاتی طور پر کبھی میٹر ریڈر کو نہیں دیکھا کہ وہ میٹر پڑھنے آیا ہو ..جون کے بل میں سو یونٹ زائد درج تھے دفتر گیا سینکڑوں صارفین زائد بلنگ کی شکائت کا رونا رو رہے تھے ،اور میٹر اسپیکٹر ہر ایک کے منہ لالی پاپ دے رہا تھا سو زائد یونٹ میں سے ساٹھ یونٹ منہا کر کے مجھے بھی لالی پاپ دے دیا .. بل پر میٹر ریڈنگ کی تاریخ چھ درج تھی چنانچہ چھ جولائی کو خود میٹر پڑھا جو یہ بتا رہا تھا 51110،اور جولائی کا بل موصول ہوأ تو بل میں موجودہ ریڈنگ ،51110کی بجائے جو میں نے درج کرائی تھی ، 51050 ،درج تھی اور یہ تکنیکی ڈکیتی ہے جو یونٹ چل چکے ہیں وہی یونٹ اگلے بل میں دوبارا درج ہونگے اور مجھے دوبارا سے وہ رقم ادا کرنا ہوگی جو ایک بار ادا کر چکا ہوں اور میرا خیال اِس قلم کی صفائی کی کو شائد کوئی بھی سمجھ نہ پائے،اب چھ اگست کو میٹر پڑھا جو 51415، جو خود دفتر میں درج کرایا کہ میٹر ریڈر… لوٹ مار بجلی کے بل کے زریعہ ہو رہی ،غریب عوام کو جس بیداردی سے لوٹا جارہا بیان سے باہر …..اور یہ بھی پہلا موقع ہے کہ پبلک اکاؤنٹ کمیٹی میں ،ظفر محمود سیکرتیری وزارت پانی و بجلی نے یہ اعتراف کیا کہ تقسیم کار کمپنیاں جعلی اور زائد بلنگ سے عوام کو لوٹ رہی ہیں ،پبلک اکاؤنٹ کمیٹی کیا کرتی کہ عوام کو اِس عذاب سے نجات ملے……!

Electricity sector in Pakistan

Electricity sector in Pakistan

سچ تو یہ بھی ہے کہ میں نے کبھی میٹر ریڈر کو نہیں دیکھا کہ وہ میٹر پڑھنے آیا ہو…. وہ دفتر میں بیٹھ کر اپنی کتاب پڑھتے اور صارفین کو ..دو سو چار سو زائدیونٹ کا ٹیکا لگا دیتے ہیں…..! . سرکاری دستاویز کے مطابق موجودہ حکومت 10.6،روپئے فی یونٹ خرید کر صارفین کو 9.8،روپئے میں فروخت کر رہی ہے …..!!کتنی فیاضی سے عوام کی جوتیاں عوام کے سر مار کر داد بھی وصول کر رہی ہے یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جب چین نے پانچ سو روپئے فی گھربجلی دینے کی پیش کش کی تو اُسے مسترد کر دیا کیوں؟ پھر یہ خبر بھی تھی کہ ایران نے بھی سستی بجلی دینے کی پیشکش کی مگر حکومت نے یہاں بھی معذرت کر لی ،کیوں؟ ،شائد اِس لئے کہ پھر چوری کا امکان نہیں ہوگا اس چوری کے پردے میں بہت کچھ چھپ جاتا ہے….. لائین لاسز کہہ کر ہر طرح سے بری الزمہ ہوتے ہیں نیز لوٹ مار ،اور آئے روز قیمتوں میں اضافہ کا جواز مل جاتا ہے اور جگا ٹیکسز میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے ،بیشک لوڈ شیڈنگ 12سے 18، گھنٹے ہو مگربل دگنے ….! اب قیمتوں میں اضافہ سے،ایک روپئے کی بجلی اور دو روپئے بجلی والے ،اِس ”والے” میں جگا ٹکسوں کی صورت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے لیکن پرسُو بنیا تو ”والے” سے سیٹھ پرس رام بن گیا اور اِس کہاوت نے جنم لیا ”پرسُو پرسا پرس رام اِس مایا کے ہیں یہ نام ”لیکن ہمارے یہ پرسُو تو لوٹ مار کے باوجود پرسُو کے پرسُو …..لیکن پانی اور بجلی کی وزارت کی طرف سے کبھی عوام کو یہ نہیں بتایا جاتاکہ منگلا،تربیلا ڈیمز جبن کا قدیم پاور پلانٹ اور دیگر چھوٹے چھوٹے پن بجلی گھروں سے پیدا ہونے والی بجلی کی پیداواری لاگت کیا ہے…اِس ،میں حکومتوں کو.. ”والا،اور والے ‘..’ سے کتنا،نفع حاصل ہوتا ہے،اور پھر اگر اُنیس ہزار میٹر ،ہر میٹر پر محض سو یونٹ زائد درج ہوں تو حساب لگائیں ایک سب ڈوژن سے ایک ماہ میں کتنا زائد ریونیو حاصل ہوگا اور کتنا جگا ٹیکس اِسی تناظر میں پورے ملک سے کتنا…..اور پھرہر وقت یہ اربوں کے خسارے کا رونا اور قیمتوںمیںاضافہ….اور ..اور…

ع.م.بدر سرحدی