بزم میں تیرے نہ ہونے کا سوال آیا بہت

khayal

khayal

بزم میں تیرے نہ ہونے کا سوال آیا بہت
تو نہیں تھا آج تو تیرا خیال آیا بہت

دیکھتے ہی دیکھتے شاہوں کی شاہی چھن گئی
باکمالوں پر زمانے میں زوال آیا بہت

جہل کے سائے میں گہری نیند ہم سوتے رہے
ہاں اذاں دینے کو مسجد میں بلال آیا بہت

سایہء آسیب ہے مت جانا تم چوتھی طرف
اس طرف جو بھی گیا، واپس نڈھال آیا بہت

تیری جانب آ رہا ہوں روح کی تسکیں کو میں
حسرتیں دل کی میں دنیا میں نکال آیا بہت

ہم چٹانوں کی طرح باہر سے ساکت تھے عدیل
پھر بھی اکثر ذات میں اپنی اُبال آیا بہت
عدیل زیدی