بچھڑا ہے جو اک بار تو ملتے نہیں دیکھا

parveen shakir

parveen shakir

بچھڑا ہے جو اک بار تو ملتے نہیں دیکھا
اس زخم کو ہم نے کبھی سلتے نہیں دیکھا

اک بار جسے چاٹ گئی دھوپ کی خواہش
پھر شاخ پہ اس پھول کو کھلتے نہیں دیکھا

یک لخت گرا ہے تو جڑیں تک نکل آئیں
جس پیڑ کو آندھی میں بھی ہلتے نہیں دیکھا

کانٹوں میں گھرے پھول کو چوم آئے گی لیکن
تتلی کے پروں کو کبھی چھلتے نہیں دیکھا

کس طرح مری روح ہری کر گیا آخر
وہ زہر جسے جسم میں کھلتے نہیں دیکھا

پروین شاکر