بچھڑ کے مجھ سے کبھی تو نے یہ بھی سوچا ہے

Half Moon

Half Moon

بچھڑ کے مجھ سے کبھی تو نے یہ بھی سوچا ہے
ادھورا چاند بھی کتنا اداس لگتا ہے

یہ ختمِ وصل کا لمحہ ہے، رائیگاں نہ سمجھ
کہ اس کے بعد وہی دوریوں کا صحرا ہے

کچھ اور دیر نہ جھڑنا اداسیوں کے شجر
کسے خبر ترے سائے میں کون بیٹھا ہے ؟

یہ رکھ رکھائو محبت سکھا گئی اس کو
وہ روٹھ کر بھی مجھے مسکرا کے ملتا ہے

میں کس طرح تجھے دیکھوں، نظر جھجکتی ہے
ترا بدن ہے کہ یہ آئینوں کا دریا ہے ؟

کچھ اس قدر بھی تو آساں نہیں ہے عشق ترا
یہ زہر دل میں اتر کر ہی راس آتا ہے

میں تجھ کو پا کے بھی کھویا ہوا سا رہتا ہوں
کبھی کبھی تو مجھے تُو نے ٹھیک سمجھا ہے

مجھے خبر ہے کہ کیا ہے جدائیوں کا عذاب
کہ میں نے شاخ سے گل کو بچھڑتے دیکھا ہے

میں مسکرا بھی پڑا ہوں تو کیوں خفا ہیں یہ لوگ
کہ پھول ٹوٹی ہوئی قبر پر بھی کھلتا ہے

اسے گنوا کے میں زندہ ہوں اس طرح محسن
کہ جیسے تیز ہوا میں چراغ جلتا ہے

محسن نقوی