بھارت: کورونا سے جنگ میں ہتھیاروں کی کمی سے دوچار

Coronavirus

Coronavirus

ممبئی (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کررہا ہے لیکن ضروری انفرادی حفاظتی سامان (پی پی ای) کی کمی کے سبب اس جنگ میں صف اول میں کھڑے ہیلتھ ورکروں کو خود اپنی حفاظت کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔

ڈاکٹرز اور طبی عملہ ذاتی طور پر اور تنظیمی سطح سے بھی حکومت کو متنبہ کرارہے ہیں کہ اگرانہیں انفرادی حفاظتی سامان(پی پی ای)بروقت اور خاطر خواہ تعداد میں فراہم نہیں کرائے گئے تواس وبا سے ہونے والے نقصان کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی کورونا وبا سے جنگ میں ڈاکٹروں، نرسوں، پیرا میڈیکل اسٹاف اور اس مہم میں صف اول میں کھڑے تمام اہلکاروں کی کوششوں کی مسلسل تعریف کرتے رہے ہیں۔ ’جنتا کرفیو‘ کے دوران ان کا شکریہ ادا کرنے اور اظہار یکجہتی کے لیے عوام سے’تالی، تھالی اور گھنٹی‘ بھی بجوائی تاہم یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ طبی عملہ کو ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران ا ن کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے پرسنل پروٹیکٹیو ایکویپمنٹ (پی پی ای) کٹ کی زبردست قلت ہے۔

پی پی ای کٹ میں ہیزمیٹ سوٹ، گاگلس، ہیلمیٹ، دستانے اور ماسک شامل ہوتے ہیں۔ ایک پی پی ای کٹ کا ایک ہی مرتبہ استعمال ہوتا ہے۔ متعدد ڈاکٹروں نے سوشل میڈیا پر یہ شکایت کی ہیں کہ ان کے پاس یا تو پی پی ای کٹ ہے ہی نہیں یا پھر جو ہے اس کا میعار انتہائی گھٹیا ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ پی پی ای اس لیے انتہائی ضروری ہے کیوں کہ اس کے بغیر کورونا وائرس سے متاثرین کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں اور طبی عملہ کے خود بھی متاثر ہوجانے کا خدشہ ہے۔

دہلی میں اسکارٹس فورٹس اسپتال کے چیئرمین ڈاکٹر اشوک سیٹھ کہتے ہیں کہ پی پی ای کی کمی ایک حقیقت ہے۔ این 95 ماسک اور چند دیگر چیزیں تو اب ملنی بھی بند ہوگئی ہیں۔ ”اگر اٹلی کی طرح بھارت میں بھی مسئلہ پیدا ہوا تو روزانہ تقریباً پانچ لاکھ پی پی ای کی ضرورت ہوگی لیکن ہمیں مئی تک صرف سات لاکھ پی پی ای دستیاب کرانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔“ ڈاکٹر سیٹھ کے مطابق این 95 ماسک تو اب ملنا بھی بند ہوگیا ہے۔ کچھ لوگوں نے اس کی ذخیرہ اندوزی شروع کردی ہے جب کہ میڈیکل ورکروں، خواہ وہ ڈاکٹر ہوں یا نرسیز یا پیرا میڈیکل اسٹاف این 95ماسک کے بغیر کام نہیں کرسکیں گے۔

بھارت کے اعلی سویلین ایوارڈ پدم بھوشن یافتہ ڈاکٹر اشوک سیٹھ کا کہنا تھا”یہ حکومت کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ ہیلتھ انفرااسٹرکچر کو فوراً مستحکم کرے۔ اگر ڈاکٹروں اور ہیلتھ ورکروں کی دیکھ بھال نہیں کی گئی اور پی پی ای کی سپلائی کو مضبوط نہیں کیا گیا تو وبا کے سنگین صورت اختیار کرنے پر اموات کی تعداد ہزاروں کے بجائے لاکھوں تک پہنچ سکتی ہے کیوں کہ اگر ایک ہیلتھ ورکر بھی کورونا سے متاثر ہوا تو پورا اسپتال بند ہوسکتا ہے اور یہی سب سے زیادہ تشویش کی بات ہے۔“

ذرائع کے مطابق بھارت کو کم از کم تین کروڑ اسی لاکھ ماسک اور باسٹھ لاکھ پی پی ای کٹ کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)نے 27 فروری کو جاری اپنی گائیڈ لائنس میں تمام ملکوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ طبی سازوسامان کا ذخیرہ کرلیں۔ لیکن اس مشورے کے برخلاف مودی حکومت نے17 مار چ تک ماسک اور دستانے جیسے حفاظتی سامان کی برآمدات کا سلسلہ جاری رکھا۔ اپوزیشن کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے حکومت کے اس فیصلے کی سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے الزام لگایا کہ مودی حکومت کورونا وبا کے تیئں سنجید ہ نہیں ہے۔

پی پی ای کے بغیر کورونا وائرس سے متاثرین کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں اور طبی عملہ کے خود بھی متاثر ہوجانے کا خدشہ ہے۔

صورت حال کی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے حکومت نے پرائیوٹ کمپنیوں کو پی پی ای کٹ تیارکرنے کا آرڈر دیا ہے۔ اب تک اکیس لاکھ پی پی ای کا آرڈر دیا گیا ہے۔ ملک میں روزانہ چھ تا سات ہزار پی پی ای تیار ہورہے ہیں جب کہ اگلے ہفتے تک یہ تعداد روزانہ پندرہ ہزار تک پہنچ جانے کی امید ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یوں تو تمام ملکوں کو پی پی ای کی کمی کا سامنا ہے لیکن اس سب سے ضروری ہتھیار کے بغیر کورونا وائرس سے جنگ جیتنا ممکن نہیں ہوگا۔ لہذا میدان جنگ کے سب سے اہم سپاہیوں کی حفاظت کو اولین ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔

دریں اثنا بھارت میں کورونا وائرس سے متاثرین کی مصدقہ تعداد 1750اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد 53 پہنچ گئی ہے۔