بھارت کی پرامن سیاسی جارحیت

indiaبھارت کی پرامن سیاسی جارحیت میں جوں جوں اضافہ ہو رہا ہے ہم محسوس کئے بغیر پسپائی کی لپیٹ میں آتے جا رہے ہیں۔ ایک عرصہ پہلے بھارتی سپریم کورٹ نے جوڈیشل ایکٹوازم شروع کی تھی۔ لیکن وہ ایڈونچرازم میں کبھی نہیں بدلی۔ کچھ عرصے کے بعد ہم بھی اس راہ پر چل نکلے لیکن بھارتی سپریم کورٹ کی طرح پہلے ہی مرحلے تک نہیں رکے۔ فاتحانہ پیش قدمی جاری رکھی۔ بھارت میں جوڈیشل ایکٹوازم  سماجی اور انتظامی خرابیوں پر ہاتھ ڈالنے سے شروع ہوئی۔ جیسے ماحول کی آلودگی شہر کا حلیہ بگاڑنے والی تعمیرات شہری آبادیوں میں صنعتوں کا قیام وغیرہ ۔ ان معاملات میں عدالتی فیصلوں سے عوام کو بے پناہ فوائد پہنچے۔ جیسے دارالحکومت دلی کی بہت سی آبادیوں میں صنعتی یونٹ قائم تھے۔ انہیں شہر سے ہٹایا جا چکا ہے۔
پاکستان میں ایسا نہیں ہوا۔ دلی میں ڈیزل اور پٹرول کی بسیں افراط سے چلا کرتی تھیں۔ سپریم کورٹ نے ان کا نوٹس لیتے ہوئے وقت کی ایک حد مقرر کر دی جسکے بعد دلی میں آلودگی پھیلانے والی بسوں پر پابندی لگا دی گئی۔ آج دلی ڈیزل اور پٹرول کی پھیلائی ہوئی آلودگی سے 80فیصد محفوظ ہو چکا ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں دھواں چھوڑتے رکشوںبسوں اورویگنوں کو آلودگی پھیلانے کی کھلی آزادی ہے۔ ان معاملات پر ہم بھارتیوں کے جھانسے میں نہیں آئے۔ البتہ کرپشن کے خلاف ہماری عدلیہ بھی اسی انداز میں پیش قدمی کر رہی ہے جس طرح کہ بھارت کی عدلیہ۔ بھارت میں بھی سپریم کورٹ میں اعلی عہدیداروں اور وزیروں کے خلاف مقدمات چلائے جانے لگے اور ان کے نتیجے میں اس وقت دو سابق وزرا قید میں ہیں اور ایک بادشاہ گرسیاستدان کرونا ریڈی کی بیٹی کرپشن کے الزام میں زیرحراست ہیں۔
پاکستان میں بھی کرپشن کے خلاف کئی مقدمات زیرسماعت ہیں اور ہمارے بھی ایک وزیر کرپشن کے الزام میں جیل کے اندر ہیں۔ دلی کے ایک صوبائی وزیر اشیائی کھیلوں کیلئے تعمیرات کے ٹھیکوں میں کرپشن کرنے پر جیل میں ہیں ۔ جتنی بڑی کرپشن بھارت کے اندر سامنے آ رہی ہے پاکستان کا پورا بجٹ بھی اس کا عشرعشیر نہیں۔ بلکہ یہاں تک کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی پوری جی ڈی پی بھی بھارت میں ہونیوالی کرپشن کے سائز سے زیادہ نہیں۔ اس کے باوجود بھارت میں کوئی ایک آواز ایسی نہیں اٹھی جس میں فوج سے یہ کہا گیا ہو کہ وہ آگے بڑھ کر حکومت کا کنٹرول سنبھالے اور کرپشن پر قابو پائے۔ حالانکہ بھارت میں یہ مطالبہ کرنے کی وجوہ زیادہ ہیں۔
ہماری قومی اسمبلی میں کیمروں کے سامنے کھلے عام نوٹوں کا لین دین کبھی نہیں ہوا جبکہ بھارت میں پارلیمنٹ ہاس کے اندر لوک سبھا کے جاری اجلاس میں ممبران کے سامنے نوٹوں سے بھرے ہوئے بیگ لا کر رکھے گئے اور اپوزیشن کے ارکان نے کیمروں کے سامنے نوٹوں کے بنڈل لہراتے ہوئے بتایا کہ یہ نوٹ ان کا ووٹ خریدنے کیلئے انہیں رشوت کے طور پہ دیئے گئے ہیں۔ پھر بھی کسی نے فوج کو نہیں پکارا۔ ہمارے ہاں سیاسی کرپشن کا اتنا بڑا مظاہرہ دیکھنے میں کبھی نہیں آیا اور جتنی کرپشن کا ڈھول ہمارے ہاں بجایا جاتا ہے بھارت کے سامنے اس کی حیثیت ایک تنکے کی سی ہے۔ اس کے باوجود کرپشن کی ہر خبر کے ساتھ فوج سے اقتدار پر قبضہ کرنے کی دردمندانہ اپیلیں سامنے آنے لگتی ہیں۔
حکومت جب کسی سیاسی پسپائی یا شرمندگی سے دوچار ہوتی ہے تو بھارت کی اپوزیشن پارٹیاں متعلقہ عہدیداروں کے استعفوں کا مطالبہ کرتی ہیں یا نئے انتخابات پر زور دینے لگتی ہیں۔ وہاں کے 22 اضلاع میں انتظامیہ کا کوئی کنٹرول نہیں۔ پھر بھی فوج بلانے کا مطالبہ سامنے نہیں آتا۔ پاکستان میں جمہوریت ابھی گھٹنوں کے بل بھی نہیں چلتی کہ فوج کو بلاوے آنے لگتے ہیں۔ بھارت کی پرامن سیاسی جارحیت کا ہدف ہمارا سیاسی نظام لگتا ہے۔ بھارتیوں کو معلوم ہے کہ وہ کرپشن کو روکنے میں اپنی کوششیں بھی جاری رکھیں گے۔ ترقی کا عمل بھی چلتا رہے گا اور جمہوریت بھی خطرے میں نہیں آئے گی۔ لیکن ہمارے ہاں جمہوری دور میں تھوڑی سی بدانتظامی یا کرپشن ہو جائے تو اقتدار سے محروم عناصر فوج سے دردمندانہ اپیلیں کرنے لگتے ہیں کہ خدا کیلئے آگے آیئے اور عوام کی منتخب کی ہوئی حکومت کو نکال کر اپنا راج قائم کیجئے اور اس کے بعد جتنی بھی کرپشن ہو جائے ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
لیکن خدا کیلئے اس جمہوری حکومت کو ہٹا دیجئے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ہمارے جنرل حضرات بھی ذرا کوتاہی نہیں کرتے اور اس طرح کے مطالبوں سے متاثر ہو کر اقتدار پر قابض ہو جاتے ہیں اور پھر ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ کم از کم دس سال اقتدار میں رہیں۔ پاکستان میں جن چار جنرلوں نے اقتدار پر قبضہ کیا ان میں صرف ایک کا اقتدار دس سال سے کم رہا۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ملک کے آدھے حصے پر بھارتی فوج نے قبضہ کر لیا تھا۔ بھارت کے سامنے ہتھیار پھینکنے والے جنرل صاحب تو پھر بھی باقی ماندہ آٹھ سال بطور صدر مملکت قوم کی خدمت کرنے پر مصر تھے اور فوج کے ذریعے اقتدار کے مزے لوٹنے والوں نے انکے مجوزہ آئین کو اسلامی قرار دیکر اس کی حمایت بھی کر دی تھی جو انہوں نے دشمن کے سامنے ہتھیار پھینکنے کے بعد نافذ کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ تو خود پاک فوج کے اندر بغاوت ہو گئی جس پر بھارت کے سامنے ہتھیار پھینکنے والے جنرل کو اپنی فوج کے سامنے بھی ہتھیار پھینکنا پڑے۔
پہلے جنرل کے اقتدار پر قبضے کے بعد تو جی ایچ کیو میں اس کا انتظام کر لیاگیا تھا کہ حاضر سروس جنرل برسراقتدار جنرل کی مدت دس سال سے بڑھتے ہی سیاستدانوں کو چابی دیدی جائے۔ یحیی خان نے اپنے ہی چیف کے خلاف احتجاجی تحریک کو چابی دیکر اسے اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا۔ ضیاالحق نے منتخب حکومت کیخلاف سیاستدانوں کو چابی دیکر اقتدار پر قبضہ کیا اور پرویزمشرف نے اقتدار پر پہلے قبضہ کیا اور چابی بعد میں دی۔ اس وقت چابی کا کچھ پتہ نہیں چل رہا۔ بڑے سیاستدان ہر حال میں جمہوری نظام کو چلانا چاہتے ہیں اور کرپشن سے بیزاری کے باوجود ان کی خواہش ہے کہ وہ خود اس پر قابو پائیں کیونکہ کرپشن پر حقیقی کنٹرول جمہوری نظام میں ہی قائم کیا جا سکتا ہے۔ جنرل تو کرپشن کو اپنا اقتدار قائم رکھنے کیلئے بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ فوج کے اقتدار میں کرپشن ختم نہیں ہوتی پھولتی پھلتی ہے۔
بھارت کی پرامن سیاسی جارحیت کا نیا مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔ وہاں جس وزیراے راجہ پر سب سے بڑی کرپشن کا الزام ہے وہ بیان دے چکا ہے کہ اس نے کرپشن قرار دیئے جانے والے سارے فیصلے وزیراعظم کے علم میں لا کر کئے تھے۔ ظاہر ہے اس بیان کے بعد اپوزیشن کی توپوں کا رخ وزیراعظم کی طرف ہو گیا ہے۔ بھارتی وزیراعظم کی دیانتداری اور شرافت دونوں پر عوام کو اعتماد ہے۔ خود اپوزیشن بھی ان خوبیوں کا اعتراف کرتی ہے۔ مگر اس کا کہنا یہ ہے کہ بطور وزیراعظم کرپشن پر نظر رکھنا اور اسے روکنا ان کی ذمہ داری تھی جسے وہ پورا نہیں کر سکے۔ اس لئے انہیں استعفی دینا چاہیے۔ اب یہ کیس آگے بڑھے گا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کیس جہاں تک بھی جائے بھارت میں فوج کو اقتدار پر قبضے کی دعوت کوئی نہیں دیگا۔ زیادہ سے زیادہ وزیراعظم استعفی دیدیں گے یا نئے انتخابات ہو جائینگے۔ لیکن پاکستان میں اگر کسی وزیرنے اپنی کرپشن میں وزیراعظم کو ملوث کر دیا جو کہ ممکن ہے تو کیا ہو گا۔
بھارت کی پرامن سیاسی جارحیت کا مقصد تو یہی ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں وہی کچھ ہو جو پہلے ہوتا رہا ہے اور جس کا وہ فائدہ اٹھاتا رہا ہے۔ یعنی وہ تو چھوٹا سا موڑ مڑ کے جمہوریت کے راستے پر گامزن رہے اور ہم ایک بار پھر بوٹوں کے نیچے آ جائیں۔ابھی تک تو ہم وہی کچھ کر رہے ہیں جو بھارت پرامن سیاسی جارحیت کے ذریعے کرنا چاہتا ہے۔ یقینا بھارت میں یہ سب کچھ ہمارے لئے نہیں ہو رہا۔ لیکن کیا کیا جائے؟ ہم ایک شوقیہ شکار ہیں۔
تحریر  : نذیر ناجی