بہت سجائے تھے آنکھوں میں خواب میں نے بھی

dreams of sad eyes

dreams of sad eyes

بہت سجائے تھے آنکھوں میں خواب میں نے بھی
سہے ہیں اس کے لیے یہ عذاب میں نے بھی

جدائیوں کی خلش اس نے بھی نہ ظاہر کی
چھپائے اپنے غم و اضطراب میں نے بھی

دیے بجھا کے سرِشام سو گیا تھا وہ
بِتائی سو کے شبِ ماہتاب میں نے بھی

یہی نہیں کہ مجھے اس نے درد ہجر دیا
جدائیوں کا دیا ہے جواب میں نے بھی

کسی نے خون تر چوڑیاں جو بھیجی ہیں
لکھی ہے خون جگر سے کتاب میں نے بھی

خزاں کا وار بہت کارگر تھا دل پہ مگر
بہت بچا کے رکھا، یہ گلاب میں نے بھی

اعتبار ساجد