تمہارے بعد اس دل کا کھنڈر اچھا نہیں لگتا

dil ka khandr

dil ka khandr

تمہارے بعد اس دل کا کھنڈر اچھا نہیں لگتا
جہاں رونق نہیں ہوتی وہ گھر اچھا نہیں لگتا

نیا اک ہمسفر چاہوں تو آسانی سے مل جائے
مگر مجھ کو یہ اندازِ سفر اچھا نہیں لگتا

کھلی چھت پر بھی جا کر چاند سے کچھ گفتگو کر لو
غزل کہنا، پسِ دیوار و در اچھا نہیں لگتا

مسلسل گفتگو بھی اپنی وحشت کو بڑھاتی ہے
مسلسل چپ بھی کوئی ہمسفر اچھا نہیں لگتا

مصور، پینٹنگ اچھی ہے لیکن کیا کہا جائے
شجر ہم کو تو بے برگ و ثمر اچھا نہیں لگتا

خدوخال و قدوقامت بظاہر پہلے جیسے ہیں
وہ جیسا پہلے تھا اب اس قدر اچھا نہیں لگتا

اعتبار ساجد