ثبات وہم ہے یارو، بقا کسی کی نہیں

sad

sad

ثبات وہم ہے یارو، بقا کسی کی نہیں
”چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں”

کرو نہ گلشن ہستی اس کے لیے
نہ ہاتھ آئے گی یارو، صبا کسی کی نہیں

زمانہ گزرا کہ دل پر ہوئی تھی اک دستک
پھر اس کے بعد تو آئی صدا کسی کی نہیں

تمام دنیا کے قصّوں سے یہ ملا ہے سبق
قصور سب ہے ہمارا خطا کسی کی نہیں

وفا، خلوص، محبت، گناہ، مکروفریب
یہ لاعلاج ہیں سارے، دوا کسی کی نہیں

مجھے تو لگتا ہے جیسے یہ کائنات تمام
ہے بازگشت یقیناً صدا کسی کی نہیں

بہت بھروسہ تھا ہم کو عدیل اپنوں کا
ہمارے کام تو آئی وفا کسی کی نہیں
عدیل زیدی