یک ایک قطرے کا مجھے دینا پڑا حساب . دیوانِ غالب

Deewan-e-Ghalib

Deewan-e-Ghalib

ایک ایک قطرے کا مجھے دینا پڑا حساب
خونِ جگر ودیعتِ مژگانِ یار تھا

اب میں ہوں اور ماتمِ یک شہرِ آرزو
توڑا جو تو نے آئینہ، تمثال دار تھا

گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو، کہ میں
جاں دادہ ہوائے سرِ رہگزار تھا

موجِ سرابِ دشتِ وفا کا نہ پوچھ حال
ہر ذرہ، مثلِ جوہرِ تیغ، آب دار تھا

کم جانتے تھے ہم بھی غمِ عشق کو، پر اب
دیکھا تو کم ہوئے پہ غمِ روزگار تھا
* * * * * *