رستہ بھی کٹھن دھوپ میں شدت بھی بہت تھی

alone man walking in sunshine

alone man walking in sunshine

رستہ بھی کٹھن دھوپ میں شدت بھی بہت تھی
سائے سے مگر اس کو محبت بھی بہت تھی

خیمے نہ کوئی میرے مسافر کے جلائے
زخمی تھا بہت پائوں مسافت بھی بہت تھی

سب دوست مرے منتظر پردئہ شب تھے
دن میں تو سفر کرنے میں دقت بھی بہت تھی

بارش کی دعائوں میں نمی آنکھ کی مل جائے
جذبے کی کبھی اتنی رفاقت بھی بہت تھی

کچھ تو ترے موسم ہی مجھے راس کم آئے
اور کچھ مری مٹی میں بغاوت بھی بہت تھی

پھولوں کا بکھرنا تو مقدر ہی تھا لیکن
کچھ اس میں ہوائوں کی سیاست بھی بہت تھی

وہ بھی سرِ مقتل ہے کہ سچ جس کا تھا شاید
اور واقفِ احوال عدالت بھی بہت تھی

اس ترک رفاقت پہ پریشاں تو ہوں لیکن
اب تک کے ترے ساتھ پہ حیرت بھی بہت تھی

خوش آئے تھے شہرِ منافق کی امیری
ہم لوگوں کو سچ کہنے کی عادت بھی بہت تھی

پروین شاکر