رعنائی نگاہ کو قالب میں ڈھالیے

shakeb jalali

shakeb jalali

رعنائی نگاہ کو قالب میں ڈھالیے
پتھر کے پیرہن سے سراپا نکالیے

گزرا ہے دل سے جو رمِ آہُو سا اک خیال
لازم ہے، اس کے پائوں میں زنجیر ڈالیے

دل میں پرائے درد کی اک ٹیس بھی نہیں
تخلیق کی لگن ہے تو زخموں کو پالیے

یہ کُہر کا ہجوم درِ دل پہ تابہ کے
بامِ یقیں سے ایک نظر اس پہ ڈالیے

احساس میں رچائیے قوسِ قزح کے رنگ
ادراک کی کمند ستاروں پہ ڈالیے

ہاں، کوزہ ہائے گِل پہ ہے تنقید کیا ضرور
گر ہو سکے تو خاک سے خورشید ڈھالیے

اُمید کی کرن ہو کہیں حسرتوں کے داغ
ہر دَم نگار خانئہ دل کو اُجالیے

شاید کہ ان کی سمت بڑھے کوئی دشتِ شوق
روندے ہوئے گلاب فضا میں اُچھالیے

ہاں، کوہِ شب کو کاٹ کے لانا ہے جُوئے نور
ہاں، بڑھ کے آفتاب کا تیشہ سنبھالیے

وجدان کی ترنگ کا مصرف بھی ہو شکیب
شاعر کی عظمتوں کو ہنسی میں نہ ٹالیے

شکیب جلالی