رقیب سے

love pain

love pain

آ کہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے
جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا ہے
جس کی اُلفت میں بھلا رکھی تھی دُنیا ہم نے
دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا

آشنا ہیں ترے قدموں سے وہ راہیں جن پر
اس کی مدہوش جوانی نے عنایت کی ہے
کارواں گزرے ہیں جن سے اسی رعنائی کے
جس کی ان آنکھوں نے بے سود عبادت کی ہے

تجھ سے کھیلی ہیں وہ محبوب ہوائیں جن میں
اس کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ہے
تجھ پہ بھی برسا ہے اس بام میں مہتاب کا نور
جس میں بیتی ہوئی راتوں کی کسک باقی ہے

تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی، وہ رُخسار، وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصور میں لُٹا دی ہم نے
تجھ پہ اٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے

ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غمِ اُلفت کے
اتنے احسان کے گنوائوں تو گنوا نہ سکوں
ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے
جز ترے اور کو سمجھائوں تو سمجھا نہ سکوں

عاجزی سیکھی، غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرمان کے، دُکھ درد کے معنی سیکھے
زیردستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے، رُخِ زرد کے معنی سیکھے

جب کہیں بیٹھ کے روتے ہیں وہ بے کس جن کے
اشک آنکھوں میں بلکتے ہوئے سو جاتے
ناتوانوں کے نوالوں پہ جھپٹتے ہیں عقاب
بازو تولے ہوئے منڈلاتے ہوئے آتے ہیں

جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے اُبلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے

فیض احمد فیض