ریت اور ہاتھ

sand in hand

sand in hand

خواب سارے بکھر گئے
وہ جو رات تھی
وہ ڈھل چکی
جو شام تھی
وہ اُتر چکی
اب اندھیرا مرے نصیب کا
وہ اُجالا صبحِ قریب کا
وہ کیا ہوا؟
کہاں کھو گیا؟
اب گئے دنوں کا خمار ہے
وہی آس ہے
وہی پیاس ہے
وہی خواب ہے
وہی ریت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہی ہاتھ ہے
یوں خواب سارے بکھر گئے
جو رات تھی وہ ڈھل گئی
بس!ریت ہاتھ میں رہ گئی

امجد شیخ