ستمبر کی یاد میں

flying pigeon

flying pigeon

ستمبر کی یاد میں
اور تو کچھ یاد نہیں بس اتنا یاد ہے
اس سال بہار ستمبر کے مہینے تک آ گئی تھی
اُس نے پوچھا
”افتخار! یہ تم نظمیں ادھوری کیوں چھوڑ دیتے ہو”
اب اُسے کون بتاتا کہ ادھوری نظمیں اور ادھوری کہانیاں
اور ادھورے خواب
یہی تو شاعر کا سرمایہ ہوتے ہیں
پورے ہو جائیں تو دل اندر سے خالی ہو جاتا ہے
پھر دھوپ ہی دھوپ میں اتنی برف پڑی کہ بہت اونچا
اُڑنے والے پرندے کے پِراس کا تابوت بن گئے
اور تو کچھ یاد نہیں بس اتنا یاد ہے
اس سال بہار ستمبر کے مہینے تک آ گئی تھی

افتخار عارف