سمجھ رہے ہیں اور بولنے کا یارا نہیں

misunderstanding

misunderstanding

سمجھ رہے ہیں اور بولنے کا یارا نہیں
جو ہم سے مل کے بچھڑ جائے وہ ہمارا نہیں

ابھی سے برف اُلجھنے لگی ہے بالوں سے
ابھی تو قرضِ ماہ و سال بھی اُتارا نہیں

سمندروں کو بھی حیرت ہوئی کہ ڈوبتے وقت
کسی کو ہم نے مدد کیلئے پکارا نہیں

جو ہم نہیں تھے تو پھر کون تھا سرِ بازار
جو کہہ رہا تھا کہ بکنا ہمیں گوارا نہیں

ہم اہلِ دل ہیں محبت کی نسبتوں کے امیں
ہمارے پاس زمینوں کا گوشوارہ نہیں

افتخار عارف