سپریم کورٹ: کراچی بدامنی ازخود نوٹس کا فیصلہ جاری

chife juftice

chife juftice

سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی کیس سے متعلق از خود نوٹس کا فیصلہ جاری کر دیا ہے ۔ فیصلہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سنایا ۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ۔ بدامنی میں متوازن معاشرے کاقیام ممکن نہیں ہے قانون کی نظر میں تمام افراد برابر ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کوتحفظ دے اور بنیادی حقوق فراہم کرے۔ ملک میں معاشی سرگرمیاں بلاخوف وخطر جاری رہناچاہیے۔ ہرشہری کا فرض ہے کہ وہ ریاست کے ساتھ وفاداری کا مظاہرہ کرے ۔حکومت بھی ریاست کے ساتھ وفاداری ظاہر کرے ۔ امن وامان اور معاشی ترقی ایک دوسرے کے ساتھ لازم وملزوم ہیں کسی کو تشدد کانشانہ نہیں بنایاجاسکتاہے۔ قرآنی تعلیمات آئین پاکستان کا حصہ ہیں فرقہ ورانہ اور لسانیت کے مسائل سے معاشرہ متاثر ہو سکتاہے جو کوئی کسی ایمان والے کو جان بوجھ کر قتل کریگا اس کی سزا سنگین ہے۔ ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان معمول بن جائے تو نہ حکومت چل سکتی ہے نہ معیشت۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں خطبہ حجتہ الوداع کا بھی حوالہ دیا گیا۔ کراچی میں بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ روزانہ کا معمول بن گیاہے ۔ کراچی میں امن وامان کی صورتحال دن بدن خراب ہوتی گئی ۔ حالات جب خراب ہوئے جب انیس سو بانوے میں ایم کیوایم کے خلاف آپریشن شروع ہوا ۔ پچیاسی سے نوے کیدوران مختلف واقعات ہوئے ۔ جس کے دوران کرفیو نافذ رہا۔ ایم کیوایم کے اشتیاق اظہر نے اس وقت کراچی کی صورتحال پر درخواست دائر کی تھی ۔ ایم کیوایم نے درخواست کی دائر کی تھی کہ آئین کے مطابق سیاست کرنے دی جائے ۔ ایم کیوایم کی درخواست کو عدم پیروی کی وجہ سے مسترد کیا گیا تھا۔
کراچی کے مختلف علاقوں سے ٹارچر سیل اور تشدد کی ویڈیوز ملی ہیں ۔ آئی جی نے رپورٹ پیش کی کہ تین سو افراد کو قتل کیاگیا۔ کراچی میں بدامنی جرائم پیشہ افراد کی کارروائی تسلیم نہیں کی جا سکتی ہے۔ ظلم کا شکار ہرزبان سے تعلق رکھنے والے بنے۔ اجمل پہاڑی سمیت دیگر ملزم سیاسی پناہ میں ہیں عادی مجرم سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔
کراچی میں بدامنی مختلف جماعتوں کے مالی مفادات کی جنگ ہے پچاس فیصد پولیس کا عملہ تعاون نہیں کرتا۔ چالیس سے پچاس فیصد پولیس سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتی ہے زمان ٹاون کے ملزمان کو سیاسی پناہ حاصل ہے جو چھ پولیس اہلکاروں کے قاتل ہیں۔ ایف آئی آر درج ہونے کے باوجود ملزمان کا سراغ نہیں مل سکا۔ سندھ حکومت نے بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کے خلاف ٹھوس اقدامات نہیں کئے۔