شام کے درد سے جھولی بھر لی

sham ka dard

sham ka dard

شام کے درد سے جھولی بھر لی
ہجر کی گرد سے جھولی بھر لی

بھری دنیا میں ہمارے دل نے
ایک ہی فرد سے جھولی بھر لی

ایک آنسو نے ذرا سا بڑھ کر
عارضِ زرد سے جھولی بھر لی

تو گیا ہے تو مرے رستوں نے
اک جہاں گرد سے جھولی بھر لی

اس نے کچھ بھی نہ کہا اور ہم نے
لمحہ سرد سے جھولی بھر لی

یہ تو خود بانجھ ہے اے دھرتی ماں
تو نے کس مرد سے جھولی بھر لی

فرحت عباس شاہ