شعلہ حسن مجسم گریہ شبنم بھی ہے

the struggle

the struggle

شعلہ حسن مجسم گریہ شبنم بھی ہے
ایک دوعالم بھی تھا اورا یک یہ عالم بھی ہے

اہل دل کو شکوہ بے مہری عالم سہی
دیکھنا یہ ہے کہ احساس شکست غم بھی ہے

پاہی لیں گے منزلیں دشواریوں کے باوجود
کوئی شے راہ طلب میں کوشش پیہم بھی ہے

منحصر ہے ظرفِ انسان پر مداوائے حیات
زرہ ناچیز ہی برہم کن عالم بھی ہے

صرف انداز بیاں طرز ادا کی بات ہے
داستان زندگی واضع بھی ہے مبہم بھی ہے

اے غم دوران ترا ہر وار ہنس کر سہہ لیا
دل بظرف دل تو ہے کی غم بقدر بھی ہے

گریہ درقت میں بھی محسن سلیقہ چاہیے
درد کا رشتہ بہت نازک بھی ہے محکم بھی ہے

محسن بھوپالی