فوج بھی ججوں اور حکومت کی طرح آئین کی پابند ہے : چیف جسٹس

Chief Justice Pakistan

Chief Justice Pakistan

اسلام آباد (جیوڈیسک) اصغرخان کیس میں بریگیڈیئر (ر) حامد سعید نے بیان جمع کرادیا۔ عدالت نے وزارت دفاع کی جانب سے 8 کروڑ روپے کے حوالے سے جمع کرائے گئے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے درست معلومات آج ہی جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالت عظمی کے تین رکنی بنچ نے اصغر خان کیس کی سماعت کی۔ رقوم کی تقسیم میں کلیدی کردار ادا کرنے والے برگیڈئیر (ر) حامد سعید اپنا تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کروایا۔

حامد سعید نے جواب میں فاضل عدالت کو بتایا کہ وہ 1990 کے الیکشن کے دوران سندھ میں ملٹری اینٹیلیجنس کا سربراہ تھے اور جولائی 1990 سے نومبر 1991 تک اسی عہدے پر تعینات رہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اس کا مطلب یہ کہ الیکشن سے پہلے تعینات ہوئے اور الیکشن کے بعد ہٹائے گئے۔ حامد سعید نے کہا کہ جو بھی رقوم کی تفصیلات ہیں وہ تحریری جواب میں لکھ دی ہیں جس کے بعد سپریم کورٹ نے جواب کی نقل اٹارنی جنرل کو دینے کی ہدایت کی۔ وزارت دفاع نے بھی 8 کروڑ روپے کے حوالے سے تفصیلی جواب عدالت کو جمع کروا دیا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ وزارت دفاع کے جواب میں 8 کروڑ روپے کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جنرل ر اسد درانی نے خود کہا تھا کہ 14 کروڑ روپے کی رقم میں سے 8 کروڑ بچے تھے جنھیں مخصوص اکانٹ میں جمع کروا دیا گیا تھا۔

ریکارڈ کے مطابق ایک مرحلے پر رقم کی تقسیم کے حوالے سے جنرل ر آصف جنجوعہ نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ عدالت نے وزارت دفاع کے ڈائریکٹر کمانڈر شہباز کو 8 کروڑ کی درست معلومات آج ہی جمع کرانے کی ہدایت کی۔ بریگیڈئر ر حامد سعید نے اپنی 21 سالہ پرانی ڈائری عدالت میں پیش کی جس میں رقوم کی تقسیم کا ریکارڈ موجود ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وقتی طور پر بریگیڈیئر ر حامد سعید کی دستاویز کو عام نہیں کررہے، عدالت میں صرف پیراگراف 9 سے 12 تک بات ہوگی۔ حامد سعید نے کہا کہ میری معروضات کا ایک پیرا گراف فوج کی بدنامی کا باعث بن سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ فوج کو بدنام کرنا آئین و قانون کے تحت قابل سزا جرم ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اگر فوج کی بدنامی ہو تو انھیں پھانسی ہوسکتی ہے۔

انھوں نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت خود اس بارے میں فیصلہ کرے کہ اسے خفیہ رکھنا ہے کہ نہیں، اس موقع پر ایڈووکیٹ آن ریکارڈ عبدالغفور نے فاضل عدالت کو بتایا کہ رحمان ملک نے بطور ڈائریکٹر ایف آئی اے اس کیس میں کام کیا تھا. وہ اس حوالے سے عدالت کی معاونت کرنا چاہتے ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ضرورت پیش آئی تو رحمان ملک سے مدد لی جائے گی۔ جنرل ر اسلم بیگ کے وکیل اکرم شیخ نے دلائل میں کہا کہ کہ اسلم بیگ نے 17 اگست 1988 کو ملکی حالات پر کنٹرول کیا تھا جس پر پیپلزپارٹی نے انھیں تمغہ جمہوریت عطا کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب آپ اس ملک کے شہری ہیں تو آپ آئین کی پابندی کریں۔

کسی کو تمغہ دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آئین کے تحت ذمہ داریاں ادا کرنا کسی پر احسان نہیں۔ مسلح افواج بھی ججوں اور منتخب حکومت کی طرح آئین کی پابند ہیں۔ ایوان صدر کے ملٹری سیکرٹری نے جواب سپریم کورٹ میں پیش کر دیا۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ 1990 میں ایوان صدر میں الیکشن انفارمیشن سیل کی موجودگی کی کوئی فائل نہیں مل سکی۔ جماعت اسلامی کے وکیل شیخ خضر حیات کے دلائل جاری تھے کہ سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔