قریئہ جاں میں کوئی پھول کھلانے آئے

me waiting for you

me waiting for you

قریئہ جاں میں کوئی پھول کھلانے آئے
وہ مرے دل پہ نیا زخم لگانے آئے

میرے ویران دریچوں میں بھی خوشبو جاگے
وہ میرے گھر کے در و بام سجانے آئے

اس سے ایک بار تو روٹھوں میں اس کی مانند
اور مری طرح سے وہ مجھ کو منانے آئے

اسی کوچے میں کئی اس کے شناسا بھی تو ہیں
وہ کسی اور سے ملنے کے بہانے آئے

اب نہ پوچھوں گی میں کھوئے ہوئے خوابوں کو پتہ
وہ اگر آئے تو کچھ بھی نہ بتانے آئے

ضبط کی شہر پناہوں کی، مرے مالک! خیر
غم کا سیلاب اگر مجھ کو بہانے آئے

پروین شاکر