متاع شامِ سفر بستیوں میں چھوڑ آئے

night scene

night scene

متاع شامِ سفر بستیوں میں چھوڑ آئے
بجھے چراغ ہم اپنے گھروں میں چھوڑ آئے

بچھڑ کے تجھ سے چلے ہم تو اب کے یوں بھی ہوا
کہ تیری یاد کہیں راستوں میں چھوڑ آئے

ہم اپنی دربدری کے مشاہدے اکثر
نصیحتوں کی طرح کم سنوں میں چھوڑ آئے

خراجِ سیل بھلا اس سے بڑھ کے کیا ہو کہ لوگ
کھلے مکان بھری بارشوں میں چھوڑ آئے

گھر ہیں لشکر اعدا میں اور سوچتے ہیں
ہم اپنے تیر تو اپنی صفوں میں چھوڑ آئے

ہوا ہی دن میں پرندے اڑائے پھرتی ہے
ہوا ہی پھر سے انہیں گھونسلوں میں چھوڑ آئے

کسے خبر ہے کہ زخمی غزال کس کے لیے ؟
نشاں لہو کے گھنے جنگلوں میں چھوڑ آئے

ہمارے بعد بھی رونق رہے گی مقتل میں
ہم اہلِ دل کو بڑے حوصلوں میں چھوڑ آئے

اڑیں گے کیا وہ پرندے جو اپنے رزق سمیت
سفر کا شوق بھی ٹوتے پروں میں چھوڑ آئے

سدا سکھی رہیں چہرے وہ ہم جنہیں محسن
بجھے گھروں کی کھلی کھڑکیوں میں چھوڑ آئے

محسن نقوی