متحدہ مجلس ایک بار پھر فعال ہو گئی

تلہ گنگ(ممتاز جرنلسٹ) متحدہ مجلس ایک بار پھر فعال ہو گئی مگر آمدہ انتخابات میں ماضی کی طرح مذہبی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے کا سیٹیں حاصل کرنا انتہائی مشکل ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس رجسٹرڈ متحدہ مجلس عمل میں شامل دو جماعتیں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام(س) موجودہ اتحاد سے باہر ہیں ۔

جمعیت علماء اسلام(سینئر)جو موجودہ ایم ایم اے کا حصہ بنی صرف چکوال شہر تک محدود ہے اس کے سربراہ پیر عبدالرحیم نقشبندی ماضی میں جمعیت علماء اسلام سمیع الحق گروپ کے مرکزی راہنماء تھے مشرف دور میں ایل ایف او کی منظوری کے وقت جب ایم ایم نے دستخظ کئے تو مولانا سمیع الحق کے انکار پر پیر عبدالرحیم نقشبندی نے جمعیت علماء اسلام(سینئر) نظریہ ضرورت کے تحت بنائی اور مولانا سمیع الحق کی جے یو آئی سے علیحدگی اختیار کر لی۔

جے یو آئی سینئر چکوال سے قومی و صوبائی اسمبلی تو درکنار کونسلر کا الیکشن بھی چکوال سے نہیں جیت سکتی۔88کے انتخابات میں پیر عبدالرحیم نقشبندی نے قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا تھا مگر کسی بھی پولنگ اسٹیشن سے انہیں دس سے زیادہ ووٹ نہیں ملے تھے اب چکوال میں مقامی سطح پر پیر عبدالرحیم نقشبندی اپنے بھائی پیر عبدالقدوس نقشبندی سے بھی ناراض ہو چکے ہیں ایسی صورت میں انکو چکوال سے ووٹ ملنا انتہائی مشکل ہے۔چکوال میں مذہبی جماعتوں میں سے جماعت اسلامی کے پاس سب سے زیادہ ووٹ بینک ہے اور جمعیت علماء اسلام(ف) دوسرے نمبر پر ہے۔جماعت اسلامی اور جے یو آئی (س) کے موجودہ متحدہ مجلس عمل سے باہر رہنے سے ایک نیا اتحاد بھی وجود میں آ سکتا ہے۔

جو دفاع پاکستان کونسل میں شامل جماعتوں جماعت اسلامی،جمعیت علماء اسلام (س) ،اہلسنت والجماعت اور انصار الامة پر مشتمل ہو گاجمعیت علماء اسلام (س) کے ترجمان مولانا عاصم مخدوم اس نئے اتحاد کا عندیہ دے چکے ہیں انکا کہنا ہے کہ مولانا سمیع الحق نیا انتخابی اتحاد تشکیل دیں گے جو متحدہ مجلس عمل سے زیادہ مئوثر ہو گا کیونکہ دفاع پاکستا ن کونسل نے ڈرون حملوںاور سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملے کے بعدملک گیر تحریک چلائی ۔لاہور،کراچی،راولپنڈی،پشاور،کوئٹہ،ملتان سمیت دیگر شہروں میں تاریخی دفاع پاکستان کانفرنسز کے علاوہ لانگ مارچ بھی کئے گئے اسی بناء پر دفاع پاکستان کونسل محب وطن عوام میں اپنا ایک مقام بنا چکی ہے اسی لئے یہ نیا اتحادفعال ہونے والی ایم ایم اے کیلئے یقینا مشکلات پیدا کرے گا۔

موجودہ ایم ایم اے میں جمعیت علماء اسلام(ف) کے پاس خیبر پختونخواہ میں ووٹ بینک ہے مگر جے یو آئی ف کے قائد اپنے آبائی علاقے ڈیرہ اسماعیل خان سے الیکشن نہیں جیت سکتے موجودہ ڈپٹی سپیکر فیصل کریم کنڈی2008کا الیکشن مولانا فضل الرحمان کے مقابلے میں جیتے ہیں خیبر پختونخواہ سے موجودہ ایم ایم اے کو چند سیٹیں ملنے کا امکان ہے پنجاب اور سندھ میں سے موجودہ ایم ایم اے قومی وصوبائی اسمبلیوں سے ایک نشست بھی نہیں لے سکتی البتہ بلوچستان سے بھی ایک یادو نشستیں موجودہ ایم ایم کا اتحاد لے سکتا ہے۔

سابقہ ایم ایم اے میں شامل جماعت اسلامی ملک کے پانچوں صوبوں کے ہر ضلع اورتحصیل بلکہ یونین کونسل کی سطح پر ووٹ بینک رکھتی ہے اگر جمعیت علماء اسلام(س) کے امیر مولانا سمیع الحق اور جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن ایم ایم میں شامل ہونے کی بجائے نیا اتحاد تشکیل دیتے ہیں تو موجودہ ایم ایم اے کے لئے بہت ساری مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں کیونکہ ایم ایم اے میں شامل مرکزی جمعیت اہلحدیث کے پاس کوئی خاص ووٹ بینک نہیں اور یہ ن لیگ کے اتحادی ہیں ۔جے یو پی نورانی بھی گو ایک بڑی جماعت ہے مگر اسکا بھی ووٹ بینک انتہائی کم ہے اسکے مقابلے میں سنی اتحاد کونسل میں شامل جماعتیں بھی ایم ایم اے کے لئے مشکلات پیدا کریں گی۔

علامہ ساجد نقوی ایک بڑے مذہبی لیڈر ہیں اور انکا ووٹ بینک بھی ہے مگر ایم ایم اے کو ملنا انتہائی مشکل ہے کیونکہ جعفریہ کی کئی ایک تنظیمیں ساجد نقوی کی قیادت پر اتفاق نہیں کرتیں۔ اگر عید کے بعد ہونے والے اجلاس میں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام(س) ایم ایم اے کا حصہ بن جائے تو ایم ایم اے حقیقی معنوں میں اپنا وجود برقرار رکھے گی اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو ایم ایم اے ایک کھوکھلا اتحاد ہو گا۔امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان پہلے حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کریں پھر ایم ایم اے میں شمولیت کا سوچا جا سکتا ہے مگر مولانا فضل الرحمان ایسا کرنیوالے نہیں اسی وجہ سے جے یو آئی س کے مولانا عاصم مخدوم اس بات کا عندیہ دے چکے ہیںکہ دفاع پاکستان کونسل میں شامل مذہبی جماعتوں بدون جماعة الدعوة کے نیا اتحاد قائم ہو گا۔

پھر تین مذہبی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے،دفاع پاکستان کونسل میں شامل جماعتوں کا اتحاد اور سنی اتحاد کونسل انتخابات میں حصہ لیں گے اور مذہبی جماعتوں کا تین اتحادوں کی وجہ سے ووٹ بینک تقسیم ہو گا اور تینوں اتحاد انتہائی کم نشستیں حاصل کر سکیں گے۔اگر یہ تینوں مذہبی اتحاد ایک ”ایم ایم اے” بنا لیں تویقینا دو تہائی سیٹیں حاصل کرنا ان کے لئے آسان ہوجائے گامگر دفاع پاکستان کونسل میں شامل کالعدم جماعتوں کی وجہ سے علامہ ساجد نقوی اور سی اتحاد کونسل ایسا نہیں کریں گیاور جماعت اسلامی مولانا فضل الرحمان کی حکومتی علیحدگی تک ایم ایم اے میں شامل نہیں گی یوں آنے والی وقت ہی مذہبی جماعتوں کے اتحاداور ان کے ووٹ بینک کا فیصلہ کرے گا۔جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن اور جمعیت علماء اسلام(س) کے امیر مولانا سمیع الحق کے آئندہ ہونے والے نئے اتحاد پر مشتمل ایم ایم اے تحریک انصاف کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کر سکتا ہے۔

کیونکہ تحریک انصاف کے مینار پاکستان پر ہونے والے جلسے کے بعد سید منور حسن خود عمران خان کو جلسے کی کامیابی کی مبارکباد دینے گئے تھے یہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے مابین انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ایک کڑی تھی۔جماعت اسلامی،دفاع پاکستان کونسل نے بھی ڈرون حملوں کے خلاف ملک گیر تحریک چلائی اور تحریک انصاف نے بھی اسلام آباد سے وزیرستان تک ڈرون حملوں کے خلاف پر امن مارچ کیا اسی وجہ سے دفاع پاکستان کونسل کے آئندہ دنوں بننے والے انتخابی اتحاد کی تحریک انصاف کے ساتھ سیٹ ایڈ جسٹمنٹ ہو سکتی ہے اور یہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ مولانا فضل الرحمان کی ایم ایم اے کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنے گی۔