مثلِ عمرِ خبرِ تو جب زندگی رہ جائیگی

rukhasati

rukhasati

مثلِ عمرِ خبرِ تو جب زندگی رہ جائیگی
دیکھنا، مضمون میں پھر تشنگی رہ جائیگی

باقی ساری شان سے رسمیں ادا ہونے کے بعد
کیا خبر تھی بس یہی اک رخصتی رہ جائیگی

پہلے پہلے فون ہونگے، خط بھی لکھے جائینگے
پھر برائے نام سے بس دوستی رہ جائیگی

ایک لمحے میں سبھی کچھ روند ڈالا جائیگا
اور چشمِ وقت سب کچھ دیکھتی رہ جائیگی

وہ مرا ہو کے بھی میرے ساتھ نہ چل پائیگا
عمر کے باقی سفر میں یہ کمی رہ جائیگی

بوڑھے ہو کر سارے پتے خاک میں مل جائینگے
شاخ پر بس ایک ننھی سی کلی رہ جائیگی

کیا کوئی اب کے بھی بچہ چھین کر لے جائیگا
اور ماں گاڑی کے پیچھے بھاگتی رہ جائیگی

میں گلے کیسے لگاتا چاند کو اپنے علی
جب خبر تھی بعد میں پھر تیرگی رہ جائیگی

محمد علی خان