محلہ سائیں سائیں کر رہا ہے

sad clouds

sad clouds

محلہ سائیں سائیں کر رہا ہے
مرے اندر کا انساں مر رہا ہے

جمی ہے سوچ پر قدموں کی چاپیں
نہ جانے کون پیچھا کر رہا ہے

میں اکثر بادلوں کو دیکھتا ہوں
کوئی بوڑھا عیادت کر رہا ہے

اب اس کی ٹھوکروں میں تاج ہو گا
وہ ساری عمر ننگے سر رہا ہے

دل اپنے غم رسیدہ پیراہن میں
اُمیدوں کا کشیدہ بھر رہا ہے

مرے سینے سے گذری ریل گاڑی
جُدائی کا عجب منظر رہا ہے

بڑا تاجر بنا پھرتا ہے سورج
مرے خوابوں کا سودا کر رہا ہے

ہو فرصت تو ہمارے دُکھ بھی بانٹے
ذرا دیکھو خدا کیا کر رہا ہے

راحت اندوری