موت جب آئی تو گھر میں جاگتا کوئی نہ تھا

unhappy man

unhappy man

موت جب آئی تو گھر میں جاگتا کوئی نہ تھا
بے حسی کا اس سے بڑھ کر واقعہ کوئی نہ تھا

کوئی بھی چارہ نہیں تھا آگے جانے کے سوا
جب بھی مڑ کر دیکھتے تھے راستہ کوئی نہ تھا

مجھ کو ایسے پیڑ سے پھل پھول کی اُمید تھی
جس کی شاخوں پر ابھی پتا ہرا کوئی نہ تھا

میں نے جب رکھا تمہاری گود سے باہر قدم
ایک صحرا تھا کہ جس میں نقش پا کوئی نہ تھا

اک جزیرے پر گزاری زندگی ساری نوید
سب جہاں آزاد لگتے تھے رہا کوئی نہ تھا

اقبال نوید