مہنگائی کا طوفان اور حکومتی بے حسی

Dr Asim Hussain

Dr Asim Hussain

دہشت گردی، لوڈشیڈنگ، بیروزگاری اور معاشی بدحالی کے شکار عوام کم از کم یوم آزادی اور عید جیسے مواقع پر ریلیف کی توقعات رکھنے میں حق بجانب ہیں مگر حکمرانوں کے بعض اقدامات سے نہ صرف ان کی امیدوں کے محل مسمار ہو رہے ہیں بلکہ جینے کی امنگ بھی ختم ہوتی جارہی ہے۔

وزیراعظم کے مشیر برائے پٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین نے 13/ا گست کو جب یہ اعلان کیا تھا کہ یوم آزادی کے تحفے کے طور پر اگست کے مہینے میں تیل کے نرخوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا تو غریب اور متوسط طبقے نے اطمینان کا سانس لیا تھا کہ کم از کم یہ مہینہ تو مہنگائی کے کسی نئے سیلاب کے بغیر گزر جائے گا مگر ابھی عید کی چھٹیاں ختم بھی نہیں ہوئی تھیں کہ بدھ 22/اگست کو سی این جی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان اور رات بارہ بجے سے اس کا اطلاق کردیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ نرخوں میں یہ اضافہ وزارت خزانہ کے دبا پر کیا گیا ہے جسے سرکاری محصول میں کمی کے باعث مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا? چنانچہ پٹرول کی قیمت 3.21روپے فی لیٹر اضافے کے ساتھ اب 96.78 روپے فی لیٹر ہوگئی ہے۔

ڈیزل کی قیمت 4.40 روپے اضافے کے ساتھ 106.19 روپے فی لیٹر ہوگئی ہے۔لائٹ ڈیزل کی قیمت 3.19روپے فی لیٹر اضافہ کے ساتھ 93.30 ہوگئی ہے۔ مٹی کے تیل کی قیمت میں بھی اضافہ کیا گیا ہے اور اب اس کی قیمت 96.35 روپے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے۔ سی این جی کی قیمتوں میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔اسلام آباد ریجن ،جس میں پوٹھوہار ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان شامل ہیں، میں3.21 روپے فی کلو اضافہ کیا گیا اور یہاں پر اس کی نئی قیمت 88.61روپے کردی گئی۔ باقی ملک میں سی این جی کی قیمت 2.68 روپے فی کلو اضافے کے ساتھ 80.94روپے مقرر کردی گئی ہے۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ کچھ عرصے سے ایسی مصنوعات کی قیمتوں میں زیادہ اضافے کی پالیسی نمایاں ہے جو عام آدمی کو متاثر کرتی ہیں۔ ہائی اسپیڈ ڈیزل کا زیادہ تر استعمال بھاری گاڑیوں اور جنریٹروں میں ہوتا ہے جس کے نرخ 106.19 روپے تک پہنچا دیئے گئے ہیں مگر عملا پیسوں کی عدم موجودگی کے باعث اس کی قیمت 107 روپے ہوگئی ہے اور گیس اسٹیشنوں پر عموما کھلا نہ ہونے کے باعث پانچ اور دس روپے سے ضرب ہونے والے اعداد میں رقم کی وصولی ہوتی ہے? اس اضافے سے ٹرانسپورٹ کے کرائے اور دوسرے اخراجات میں اضافے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔

لائٹ ڈیزل آئل کے نرخ بھی93.30 روپے فی لیٹر ہونے کے بعد ہلکے انجنوں اور دیہی فلور ملوں کے اخراجات بڑھیں گے جبکہ ملک میں پیدا ہونے والے کئی اقسام کے تیل کی قیمتوں میں اضافے سے بچنے کی صورت نکالی جاسکتی تھی? حکومت کو ایک لیٹر پٹرول پر زیادہ سے زیادہ لیوی(یعنی محصول)10روپے، ایچ او بی سی پر 14 روپے، کیروسین پر 6روپے اور ہائی اسپیڈ ڈیزل پر 8روپے مل رہا ہے? 16 فیصد جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں حاصل ہونے والی آمدنی اس کے علاوہ ہے جو قیمتوں میں 14 سے 17روپے کے درمیان گردش کرتی رہتی ہے۔

 

cng gas

cng gas

کی نئی قیمتوں کو بھی اب تک کی سب سے زیادہ قیمتیں کہا جارہا ہے۔ بات یہیں پر رکتی نظر نہیں آتی بلکہ یکم ستمبر سے تیل کے نرخوں میں 3 تا 4 روپے فی لیٹر اور سی این جی کے نرخوں میں3روپے فی کلو گرام اضافے کے امکانات ظاہر کئے جارہے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے مگر پاکستان ان سے متاثر ہونے والا اکلوتا ملک نہیں ہے۔اکنامک منیجرز جانتے ہیں کہ تیل اور گیس کی قیمتوں میں بار بار اضافہ ملکی معیشت کو درہم برہم کرکے رکھ دیتا ہے۔ اس لئے وہ بجٹ بناتے وقت تمام حالات کا اندازہ کرکے ایندھن کے نرخوں کا تعین اس طرح کرتے ہیں کہ منڈی میں اتار چڑھا ہو بھی تو محصولات میں کمی بیشی کرکے ان نرخوں کو ایک ہی سطح پر رکھنا ممکن ہو اس طرح عام آدمی کے بجٹ کو متاثر نہیں ہونے دیا جاتااس کے ساتھ ہی حکومتیں ایسے اقدامات کرتی رہتی ہیں جن کے ذریعے عوام کے مالی حالات بہتر ہوں اور وہ آسانی سے ٹیکس ادا کرسکیں مگر معلوم ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے اکنامک منیجرز کو نہ بینکوں سے قرض لیکر ہضم کی گئی رقوم کی واپسی سے کوئی دلچسپی ہے، نہ کرپشن کے ذریعے قومی خزانے کو پہنچائے جانے والے بھاری نقصان کی پروا ہے۔

وسائل پر قابض اشرافیہ سے ٹیکسوں کی وصولی ان کی ترجیحات میں اس لئے شامل نہیں کہ سرکاری اور اپوزیشن بینچوں پر زیادہ تر اسی طبقے کے افراد خود یا ان کے نمائندے براجمان ہیں لے دے کر آمدنی بڑھانے کا یہی طریقہ رہ گیا ہے کہ مہنگائی اور افراط زر کا سہارا لیا جائے جو محصولات کی بدترین اور انتہائی ظالمانہ صورت ہے کیا ہمارے پاس اپنے معدنی وسائل بروئے کار لانے کے تمام امکانات ختم ہوچکے ہیں کیا ہم کثیر قومی اداروں کے مفاد کے لئے اپنے آبی وسائل کو نظر انداز کرنے اور تھرکول کے فوائد کو برسوں سے موخر کرتے چلے آنے کی پالیسی پر نظرثانی کرنے کے قابل نہیں ہیں کیا دنیا کے بہت سے ملکوں کی طرح اپنے شاہانہ اخراجات میں کمی کرنا اور وزرا کی تعداد کو محدود رکھنا ہمارے اختیار میں نہیں کیا دنیا کے بہت سے ملکوں کی طرح ہم اپنی صنعت، زراعت اور تجارت کو سہارا دینے کی کسی حکمت عملی پر کام نہیں کرسکتے کیا غبن ، لوٹ مار ، کک بیکس، کمیشن ، بھتہ وصولی ، ملازمتوں کی فروخت اور املاک پر ناجائز قبضوں کی روک تھام ہمارے امکان سے باہر کی چیزیں ہیں؟ کیا اپنے عوام کی بڑی تعداد کو غربت کی لکیر سے نیچے جانے سے روکنے اور انہیں بنیادی ضروریات فراہم کرنے کے لئے ہمارے پاس کوئی منصوبہ ہے ان جیسے بہت سے سوالات کا جواب دینا ہمارے ارباب اختیار اور اکنامک منیجرز کی ذمہ داری ہے۔

 

food items prices

food items prices

عام آدمی اپنے وزیر خزانہ سے یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہے کہ وہ اسے سات ہزار روپے ماہانہ آمدن میں میاں بیوی ، دو بچوں اور بوڑھے ماں باپ پر مشتمل چھوٹے گھرانے کا بجٹ بنادیں جس کے ذریعے خوراک ، لباس ، مکان کے کرائے ، یوٹیلیٹی بلوں، ٹرانسپورٹ، اسکول کی فیس اور دوسرے اخراجات پورے کرنا ممکن ہوں?دنیا بھر میں تیل کے نرخوں کے باعث اگر کئی چیزیں مہنگی ہوتی ہیں تو بھی مہذب ممالک غذائی اشیا کو عام آدمی کی رسائی میں رکھنے کی تدابیر کرتے ہیں امریکہ اور برطانیہ میں انڈے، ڈبل روٹی، دودھ جیسی ضروری اشیا کی قیمتوں پر نہ صرف سخت کنٹرول رکھا جاتا ہے بلکہ غذائی اشیا کی دس سالہ قیمتوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو برطانیہ میں ان کے نرخ کم ہوئے ہیں، بڑھے نہیں ہیں۔

وطن عزیز میں بھی محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے ادوار میں غذائی اشیا کے نرخوں میں معمولی اضافے کا بھی نوٹس لیا جاتا تھا، کابینہ اور ایکنک کا اجلاس بلا کر صورتحال پر قابو پانے کی تدابیر کی جاتی تھیں موجودہ حکمرانوں کو یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ 18فروری 2008 کے انتخابات میں انہیں برسراقتدار لانے والے عوام اپنے حالات میں اچھی تبدیلی کی توقع رکھتے تھے آنے والے انتخابات میں انہیں پھر عوام کے پاس جانا ہے اس لئے عوام پر مزید بوجھ بڑھانے سے اجتناب برتیں خلق خدا کا بہت زیادہ امتحان ہوچکا، انہیں تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق سڑکوں پر آنے پر مجبور کیا گیا تو یہ ایک المیہ ہوگا اس لئے ہمارا مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کا فیصلہ واپس لیا جائے اور ایسے اقدامات کئے جائیں جن کے ذریعے غریب اور متوسط طبقے کے لئے سانس لینے کی کچھ تو گنجائش پیدا ہو۔