میں پوچھتا ہوں کہ یہ کاروبار کس کا ہے

i ask

i ask

میں پوچھتا ہوں کہ یہ کاروبار کس کا ہے
یہ دل مرا ہے مگر اختیار کس کا ہے

یہ کس کی راہ میں بیٹھے ہوئے ہو فرحت جی
یہ مدتوں سے تمہیں انتظار کس کا ہے

تڑپ تڑپ کے یہ جب سرد ہونے لگتا ہے
تو پوچھتے ہیں دل بے قرار کس کا ہے

یہ بات طے ہی نہیں ہو سکی ہے آج تلک
ہمارے دونوں میں آخر فرار کس کا ہے

نہ جانے کس نے مرے منظروں کو دھندلایا
نہ جانے شہر پہ چھایا غبار کس کا ہے

فرحت عباس شاہ