وہ اپنے آپ سے بھی جدا چاہیے ہمیں

dua hands

dua hands

وہ اپنے آپ سے بھی جدا چاہیے ہمیں
اس کا جمال اس کے سوا چاہیے ہمیں

ہر لمحہ جی رہے ہیں دوا کے بغیر ہم
چارہ گرو تمہاری دعا چاہیے ہمیں

پھر دیکھیے جو حرف بھی نکلے زباں سے
اک دن جو پوچھ بیٹھے کہ کیا چاہیے ہمیں

جانا نہیں ہے گھر سے نکل کر کہیں مگر
ہر ماہ رُو کے گھر کا پتا چاہیے ہمیں

مدت سے ہم کسی کو نہیں دے سکے فریب
اے شہرِ التفات وفا چاہیے ہمیں

ہر آن آخری ہے مگر اس کے باوجود
اس آن بھی یقینِ فنا چاہیے ہمیں

جون ایلیا