پھول گالوں کو تو آنکھوں کو کنول کہتا رہا

flowers

flowers

پھول گالوں کو تو آنکھوں کو کنول کہتا رہا
جنگ تھی باہر گلی میں ، میں غزل کہتا رہا

شاعری کی اور نظر انداز کی بچوں کی بھوک
چاند کو روٹی کا نعم البدل کہتا رہا

آ پڑا دل پر مرے آخر مرا کہنہ وجود
روز دستک دے کے اس گھر سے نکل، کہتا رہا

آگئی آخر مرے سر پر مرے دشمن کی فوج
میں بھی تیاری کروں گا آج کل کہتا رہا

طے نہ کر پایا کبھی اپنا تشخص ہی نسیم
آبِِ زم زم کو ہمیشہ گنگا جل کہتا رہا

افتخار نسیم