چوری

saadat hasan manto

saadat hasan manto

“بابا جی کوئی کہانی سنائیے۔” سکول کے تین چار لڑکے الاؤ کے گرد حلقہ بنا کر بیٹھ گئے اور اس بوڑھے آدمی سے جو ٹاٹ پر بیٹھا اپنے استخوانی ہاتھ آگ تاپنے کی خاطر الاؤ کی طرف بڑھائے ہوئے تھا، کہنے لگے۔

مردِ معمر نے جو غالبا کسی گہری سوچ میں غرق تھا، اپنا بھاری سر اٹھایا جو گردن کی لاغری کی وجہ سے نیچے کو جھکا ہوا تھا۔

“کہانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں خود ایک کہانی ہوں، مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”

اس کے بعد کے الفاظ اس نے اپنے پوپلے منہ میں ہی بڑبڑائے، شاید وہ اس جملہ کو لڑکوں کے سامنے ادا کرنا نہیں چاہتا تھا جنکی سمجھ اس قابل نہ تھی کہ وہ اس قسم کے فلسفیانہ نکات حل کر سکیں۔

لکڑی کے ٹکڑے ایک شور کے ساتھ جل جل کر الاؤ کے آتشیں شکم کو پر کر رہے تھے۔

alao

alao

شعلوں کی عنابی روشنی لڑکوں کے معصوم چہروں پر ایک عجیب انداز میں رقص کر رہی تھی۔ ننھی ننھی چنگاریاں سپید راکھ کی نقاب الٹ الٹ کر حیرت میں سر بلند شعلوں کا منہ تک رہی تھیں۔

درختوں کے خشک پتے بڑی دلیری سے آگ کا مقابلہ کرتے ہوئے اس شعلہ افشاں قبر میں ہمیشہ کے لئے کود رہے تھے۔ سرد ہوا کے جھونکے کوٹھڑی کی گرم فضا کا استقبال کرتے ہوئے اسکے ساتھ بڑی گرمجوشی سے بغلگیر ہو رہے تھے۔کونے میں مٹی کا ایک دیا اپنی کمزور روشنی پر آنسو بہا رہا تھا۔

“کہانی۔۔۔۔۔۔ہر روز کہانی، کل سناؤں گا۔” بوڑھے آدمی نے الاؤ کی روشنی میں سے لڑکوں کی طرف نگاہیں اٹھا کر کہا۔

لڑکوں کے تمتمائے ہوئے چہروں پر افسردگی چھا گئی، نا امیدی کے عالم میں وہ ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے گویا وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں کہہ رہے تھے، آج رات کہانی سنے بغیر سونا ہوگا۔

یکایک ان میں سے ایک لڑکا جو دوسروں کی نسبت بہت ہوشیار اور ذہین معلوم ہوتا تھا، الاؤ کے قریب تر سرک کر بلند آواز میں بولا۔

“مگر کل آپ نے وعدہ کیا تھا اور وعدہ خلافی کرنا درست نہیں ہے، کیا آپ کو کل والے حامد کا انجام یاد نہیں جو ہمیشہ اپنا کہا بھول جاتا تھا۔”

“درست۔۔۔۔۔میں بھول گیا تھا۔” بوڑھے آدمی نے یہ کہتے ہوئے اپنا سر جھکا لیا جیسے وہ اپنی بھول پر نادم ہے۔ تھوڑی دیر بعد وہ اس دلیر لڑکے کی جرأت کا خیال کر کے مسکرایا۔ “میرے بچے مجھ سے غلطی ہو گئی ہے معاف کر دو، مگر میں کونسی کہانی سناؤں، ٹھہرو مجھے یاد کر لینے دو۔” یہ کہتے ہوئے وہ سر جھکا کر گہری سوچ میں غرق ہو گیا۔

اسے جن اور پریوں کی لا یعنی داستانوں سے سخت نفرت تھی، وہ بچوں کی وہی کہانیاں سنایا کرتا تھا جو انکے دل و دماغ کی اصلاح کر سکیں۔ اسے بہت سے فضول قصے یاد تھے جو اس نے اپنے ایامِ طفلی میں سنے تھے یا کتابوں سے پڑھے تھے مگر اس وقت وہ اپنے بربطِ پیری کے بوسیدہ تار چھیڑ رہا تھا کہ شاید ان میں کوئی خوابیدہ راگ جاگ اٹھے۔

لڑکے بابا جی کو خاموش دیکھ کر آپس میں آہستہ آہستہ گفتگو کر رہے تھے، غالبا وہ کسی لڑکے کا ذکر کر رہے تھے جسے کتاب چرانے پر بید کی سزا ملی تھی۔ باتوں باتوں میں ان میں سے کسی نے بلند آواز میں کہا۔

book

book

“ماسٹر جی کے لڑکے نے بھی تو میری کتاب چرا لی تھی مگر اسے سزا وزا نہ ملی تھی۔”

“کتاب چرا لی تھی۔” ان چار لفظوں نے جو پوری آواز میں ادا کئے گئے تھے، بوڑھے کی خفتہ یاد میں ایک واقعے کو جگا دیا۔ اس نے اپنا سپید سر اٹھایا اور اپنی آنکھوں کے سامنے اس فراموش کردہ داستان کو انگڑائیاں لیتے ہوئے پایا۔

ایک لمحے کیلئے اسکی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی مگر ساتھ ہی وہیں غرق ہو گئی۔۔۔۔۔۔اضطراب کی حالت میں اس نے اپنے نحیف جسم کو جنبش دے کر الاؤ کے قریب کیا۔ اسکے چہرے کے تغیر و تبدل سے صاف طور پر عیاں تھا کہ وہ کسی واقعے کو دوبارہ یاد کر کے بہت تکلیف محسوس کر رہا ہے۔

الاؤ کی روشنی بدستور لڑکوں کے چہروں پر ناچ رہی تھی۔۔۔۔۔دیا اسی طرح اپنے جلے نصیبوں کو رو رہا تھا۔ کوٹھڑی کے باہر رات سیاہ زلفیں بکھیرے روشنی کی طرف اپنی تاریک آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہی تھی ۔

لڑکے آپس میں سکول کی باتیں کرنے میں مشغول تھے، چھت جھک کر انکی معصوم باتوں کو کان لگا کر سن رہی تھی۔

دفعتا بوڑھے نے آخر ارادہ کرتے ہوئے کہا۔ “بچو، آج میں اپنی کہانی سناؤں گا۔”

لڑکے فورا اپنی گفتگو چھوڑ کر ہمہ تن گوش ہو گئے۔ الاؤ کی چیختی ہوئی لکڑیاں

Fire

Fire

ایک شور کے ساتھ اپنی جگہ پر ابھر کر خاموش ہو گئیں۔۔۔۔۔۔ایک لمحے کیلیئے فضا پر مکمل سکوت طاری رہا۔

“اپنی کہانی سنائیں گے؟” ایک لڑکے نے خوش ہو کر کہا۔ باقی سرک کر آگ کے قریب خاموشی سے بیٹھ گئے۔

“ہاں، اپنی کہانی۔” یہ کہہ کر بوڑھے آدمی نے اپنی جھکی ہوئی گھنی بھوؤں میں سے کوٹھڑی کے باہر تاریکی میں دیکھنا شروع کیا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ پھر لڑکوں سے مخاطب ہوا۔ “میں آج تمھیں اپنی پہلی چوری کی داستان سناؤں گا۔”

لڑکے حیرت سے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے، انہیں در اصل یہ وہم و گمان بھی نہ تھا کہ بابا جی کسی زمانے میں چوری بھی کرتے رہے ہیں۔ بابا جی جو ہر وقت انہیں برے کاموں سے بچنے کیلیئے نصیحت کیا کرتے ہیں۔

لڑکا جو ان سب میں دلیر تھا اپنی حیرانی نہ چھپا سکا۔ “مگر کیا آپ نے واقعی چوری کا ارتکاب کیا تھا؟”

“واقعی”

“آپ اس وقت کونسی جماعت میں پڑھا کرتے تھے؟”

“نویں میں”

یہ سن کر لڑکے کی حیرت اور بھی بڑھ گئی، اسے اپنے بھائی کا خیال آیا جو نویں جماعت میں تعلیم پا رہا تھا، وہ اس سے عمر میں دوگنا تھا۔ اسکی تعلیم اس سے کہیں زیادہ تھی، وہ انگریزی کی کئی کتابیں پڑھا ہوا تھا اور اسے ہر وقت نصیحتیں کیا کرتا تھا۔ پھر یہ کیونکر ممکن تھا کہ اس عمر کا لڑکا اور اچھا پڑھا لکھا لڑکا چوری کرے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسکی عقل اس معمے کو نہ حل کر سکی، چنانچہ اس نے پھر سوال کیا۔

“آپ نے چوری کیوں کی؟”

یہ مشکل سوال دیکھ کر بوڑھا تھوڑی دیر کیلیئے بہت گھبرایا، آخر وہ اسکا کیا جواب دے سکتا تھا کہ فلاں کام اس نے کیوں کیا؟ بظاہر اسکا جواب یہی ہو سکتا تھا “اس لیئے کہ اس وقت دماغ میں یہی خیال آیا۔”

بوڑھے نے دل میں یہی جواب سوچا مگر اس سے مطمئن نہ ہو کر یہی بہتر خیال کیا کہ تمام داستان من و عن بیان کر دی جائے، اس لیئے کہ وہ بذاتِ خود اس سوال کا سب سے آسان جواب ہے۔

“اسکا جواب میری کہانی ہے جو تمھیں سنانے والا ہوں۔”

“سنائیے۔”

تحریر: سعادت حسن منٹو