چوٹ ہر گام پہ کھا کر جانا

hopeless man

hopeless man

چوٹ ہر گام پہ کھا کر جانا
قربِ منزل کے لیے مر جانا

ہم بھی کیا سادہ نظر رکھتے تھے
سنگ ریزوں کو جواہر جانا

مشعلِ درد جو روشن دیکھی
خانئہ دل کو منور جانا

رشتئہ ٹم کو رگِ جاں سمجھے
رخمِ خنداں کو گُلِ تر جانا

یہ بھی ہے کارِ نسیم سحری
پتی پتی کو جُدا کر جانا

اپنے حق میں وہی تلوار بنا
جسے اک پھول سا پیکر جانا

دشمنوں پر کبھی تکیہ کرنا
اپنے سائے سے کبھی ڈر جانا

کاسئہ سر کو نہ دی زخم کی بھیک
ہم کو مجنوں سے بھی کم تر جانا

اس لیے اور بھی خوش تھے ہم
اہلِ محفل نے سخنور جانا

شکیب جلالی