کبھی کبھی

kabhi kabhi

kabhi kabhi

کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے
کہ زندگی تری زلفوں کی نرم چھائوں میں
گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی
یہ تیرگی جو مری زیست کا مقدر ہے
تری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی
عجب نہ تھا کہ میں بیگانہ الم ہو کر
ترے جمال کی رعنائیوں میں کھو رہتا
ترا گداز بدن، تیری نیم باز آنکھیں
انہی حسین فسانوں میں محو ہو رہتا
پکارتیں مجھے جب تلخیاں زمانے کی
ترے لبوں سے حلاوت کے گھونٹ پی لیتا
حیات چیختی پھرتی برہنہ سر اور میں
گھنیری زلفوں کے سایہ میں چھپ کے جی لیتا

مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے
کہ تو نہیں ترا غم ، تری جستجو بھی نہیں
گزر رہی ہے کچھ اسطرح زندگی جیسے

زمانے بھر کے دکھوں کو لگا چکا ہوں گلے
گزر رہا ہوں کچھ انجانی راہگواروں سے
تم میں ہمت ہے تو دنیا سے بغاوت کر دو
ورنہ ماں باپ جہاں کہتے ہیں شادی کر لو

ساحر لدھیانوی