کب تک لکیریں پیٹیں گے

ہم نے ہر دور میں تقدیس رسالت کیلئے
وقت کی تیز ہواؤں سے بغاوت کی ہے
توڑ کر سلسلہ رسمِ سیاست کا فسوں
فقط اِک نام محمدﷺ سے محبت کی ہے

 MUHAMMAD {SAW}

MUHAMMAD {SAW}

اس وقت پوری اسلامی دنیا میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ـ جب ایک امریکن فلم منظر عام پے آئی ـ اس فلم کے اندر وہی سوچ کارفرما رہی جو غیر تصدیق شدہ باپ کی اولاد دے سکتی ہےـ

ہمارے پیغمبر آخری الزمان کی زندگی کے بارے میں غلیظ سوچ کا پر تو اور گھٹیا انداز کی عکاس یہ فلم جس نے برصغیر پاک وہند ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات کو شدید مشتعل کردیا ہے ـ ہنگامہ آرائی توڑ پھوڑ امریکی مصنوعات کا بائیکاٹ امریکہ سے تعلقات پے نظر ثانی اور لیبیا میں جذباتی عوام نے آگ بگولہ ہو کر امریکن سفیر کو ہی جان سے مار دیا اس کا شدید رد عمل ہے ـ

فوری ردِعمل کے طور پے دوامریکی بحری جنگی جہاز بھاری جنگی سازو سامان سے لیس لیبیا کی جانب روانہ کئے جا چکے ہیں ـ سوڈان میں بھی خطرناک حد تک مشتعل لوگوں کا احتجاج دیکھنے میں آیا ـ ہندوستان پاکستان میں بعد از نمازِ جمعہ لوگوں کی کثیر تعداد نے ناموس رسالت کیلئے احتجاج کیا ـ

یہ پہلی بار نہیں ہے کہ آپ ﷺ کی ذات مبارک کیلیۓ کسی پلید انسان نے ایسی مکروہ جسارت کی ہےـ اس سے پہلے متعدد بار ایسی کئی چیزیں منظرِ عام پے آچکی ہیں کبھی شاتمِ رسولﷺ سلمان رشدی کبھی ڈنمارک کا کارٹونسٹ کبھی ہالینڈ کبھی جرمنی ـ

ہمیشہ کیا ہوتا ہے ہم جاگ اٹھتے ہیں خوب نعرے بازی کرتے ہیں امریکن پرچم نذرِ آتش کرتے ہیں ـ اپنے ملک کی قیمتی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں ـ

جلسے جلوسوں سے خوف کی فضا پیدا ہوتی ہے ـ ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے ـ موجودہ دور میں جب معیشت آخری ہچکیوں پے ہے روٹی کے لالے ہیں ـ اس ملک میں جہاں عوام کے منہ سے گندم گوشت دالیں اور اناج کی دیگر اجناس کو ہمسایہ ملک افغانستان دوگنی قیمت پے اسمگل کیا جا رہا ہےـ گھر گھر فقر و فاقہ ہے ـ ایسے میں کون ہے جو بار بار ایسے مظاہروں کیلیۓ گھر والوں کو بھوکا رکھ کر فکر معاش سے آزاد ہو کے یہاں آئے گا ؟ لوگ ایسے مظاہروں کے بار بار متحمل نہیں ہو سکتے ـ ماضی سے یہ سبق بھی ملتا ہے ایسے مظاہرے حکومتِ وقت کی پالیسی کو تو پسپا کر سکتے ہیں ـ

آج تک پاکستان سے باہر کی دنیا نے ان کا اثر قبول نہیں کیا وہ ان کو “”وقتی جذباتی”” اثر سمجھ کر چند روز بعد کا انتظار کرتے ہیں جب یہ مظاہرے ختم ہو جائیں گے اور ایسا ہی ہوتا بھی ہے ـ

ہم کب تک سو سال پرانے احتجاج کے انداز کو پکڑے رکھیں گے ـ یہی تو دشمن چاہتا ہے کہیں تو وہ ہمیں بارود کے ڈھیروں سے حواس باختہ کرتا ہے ـ

ہماری تباہی پے شیطانی قہقہے لگاتا ہے ـ تو کہیں سوچی سمجھی سازش کے تحت ایسے مکروہ عوامل سے ہمیں آگ بگولہ دیکھتا ہے ملک کی تباہی ہمارے ہاتھوں ہوتی دیکھ کر خوشی سے بغلیں بجاتا ہے ـ

ذرا سوچئے !!! کتنی بار ایسے شیطانی واقعات ہو چکے؟ ان کا نتیجہ مثبت انداز میں کیا نکلا؟ کی ایسے گھٹیا ایسے اسلام منفی حادثات کو ایک بار اکٹھے ہو کر نعرے مار کر املاک کو نقصان پہنچا کر ہمارا اصل مشن پورا ہو جاتا ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو ایک کے بعد دوسرا واقعہ اتنی عجلت سے سامنے نہ لایا جاتا ـ اس کا مطلب ایسے شیطانی واقعات کیلیۓ صرف احتجاج ناکافی ہے ـ اس کے لئے اب کوئی اور ردعمل ظاہر کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ـ

پے درپے واقعات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو بتاتا ہےـ ہمارے احتجاج کا طریقہ غلط ہے ـ ہمیں ٹھوس بنیادوں پے کوئی ایسا لائحہ عمل طے کرنا چاہیۓ کہ کہ مستقبل قریب یا بعید میں پھر کوئی شیطان ایسی شیطانی جسارت کرے تو اس کا باقاعدہ کسی قانون کے تحت احتساب ہو ـ اس موجودہ حکومت کو دنیا میں قائم دیگر مسلم ممالک کےحکمرانوں کو غیرت کا بھولا ہوا سبق یاد دلانا ہوگا اور ان کو اس بات پے متفق کرنا ہوگا کہ تمام کے تمام اسلامی ممالک کے شہنشاہ صدور مل کر ایک قرار داد پیش کریں اور اس میں دنیا بھر کو پابند کریں کہ کوئی ایسا قانون منظور کیاجائے جس میں مذہبی معاملات پے ایسے بد نسلوں کی ناپاک سوچ کی کوئی بھی عملی شکل سامنے آئے تو ان کو سخت سے سخت سزا دی جا سکے ـ

آج پوری مسلم دنیا غصے سے پیچ و تاب کھا رہی ہے ـ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان دنیا کے بے حس حکمرانوں کو لیبیا مصر کی مثالیں دے کر ناموسِ رسالت پر ان کی سوئی ہوئی غیرت کو جگایا جائے اور باوقار قوموں کی طرح مربوط مستند طریقے سے ایسی کوئی دستاویز تیار کی جائے کہ جس کے تحت توہین رسالت کے مرتکب انسان کو سخت سزا دی جائے گی ـ

ہم لوگ بکھیر دیے گئے ہیں امتِ مسلمہ کو لاتعداد مسائل کا منبع بنا کر دانستہ طور پے یوں الجھا دیا گیا ہے کہ کوئی سر اٹھا کر چل نہ سکے ـ

بحیثیت امت اتنے لاغر اتنے نحیف کر دیے گئے ہیں کہ اسلام کا وہ خوبصورت تصور مساوات اخوت کا آج گلوبل ویلج کے نام سے فروغ پا رہا ہے ـ اس نئے تجریدی نام کو ہم سب نے بغیر چوں چراں کئے اس لئے بخوشی قبول کر لیا کیونکہ اس سے آپ پوری دنیا سے رابطے میں ہیں ـ آپ کے کاروباری حلقے بڑہتے ہیں آپ کی فہم کو نئی سے نئی سوچ سے واسطہ پڑتا ہے ـ آپ کی شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے ـ یہیں وہ بھی خاموشی سے ہو جاتا ہے ـ جو آپ کو آپ کے عقائد سے جدت پسندی بڑی خوبصورتی بڑی خاموشی سے پرے لے جانے کا باعث بنتی ہےـ ہم نے اسلام کے اصول کو “” کسی عربی کو کسی عجمی پر کسی عجمی کو کسی عربی پے کوئی فضیلت حاصل نہیں ـ فضیلت صرف تقویٰ پے ہے ” اس کو تو فراموش کر دیا ـ اور جدید گلوبل ویلج میں برابری کی سطح کو بڑی خندہ پیشانی سے قبول کر لیا یہی قبولیت اگر امتِ مسلمہ کے اتحاد پے منتج ہوتی تو نجانے آج امتِ مسلمہ کس طاقت کی کس شان کی مظہر ہوتی ـ

آج بھی ہو جو ابراہیم سا ایمان پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا

سوچنا ہوگا کب تک ہم سال دو سال بعد کسی طے شدہ سازش کے تحت کسی ایسی ناپاک جسارت کے رونما ہونے پر خود کو سڑکوں پے لا کر اپنا غصہ اپنی برہمی دکھا کر توڑ پھوڑ کر کے ماضی کی طرح واپس بپھرے ہوئے اسلامی شیر اپنی اپنی کچھاروں میں جائیں گے؟ اور ان سے بہت دور ہزاروں کلو میٹر دور محفوظ بنکر میں بیٹھے وہ شیطان ہر بار کی طرح بلند و بانگ دعوےٰ کر کے سازش کو کامیابی سے منظر عام پے لاکر ہیجان برپا کر کے شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ مسلمان شیروں کو بے بسی سے بپھرتے للکارتے چیختے چِلاتے دیکھ دیکھ کر اپنی فتح کے شادیانے بجائیں گے ـ

نہیںٌ ایسا اب نہیں کرنا ـ ہم سب لوگ احتجاج کریں گے لیکن اب خود فیصلہ نہیں کرنا اپنے بے حس حاکم کو نشے کی حالت سے باہر نکال کر ان کو انکی ذمہ داری کا احساس دلا کر ان سے فیصلے کروانے ہیں ـ ان کو مجبور کرنا ہے کہ وہ اسلامی ممالک کو اکٹھا کرے اور اسلامی حکمران اللہ کے اور اس کے نبی ﷺ کی شان کیلیۓ اس وقت کوئی ایسی کانفرنس کا انعقاد کریں کہ ان کا باہمی اسلامی اتحاد باطل طاقتوں کو گھٹنے ٹیکنے پے مجبور کر دے ـ اور یہ شیطانی کارستانیوں کا مذموم سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کیلیۓ کسی قانون کا پابند ہو کر نت نئے شیطانی فتنے پیدا کرنے سے باز رہے ـ

میرے عزیز ہم وطنو

ہمارے اسلامی تشخص کے اصل ذمہ دار ہمارے مذہبی جماعتوں کے رہنما ہیں ـ ان سے پاکستان کی بقا کیلیۓ درخواست کرتی ہوں کہ آج بھی اپنے سیاسی ذاتی تعصبات مسائل تحفظات کو بھول کر اس افسوس ناک موقعے پے ہاتھوں کی زنجیر بنا کر ناموسِ رسالت کیلیۓ آپ اکٹھے کھڑے ہوں گے تو پوری قوم آپ کی پیروی کرے گی بلا رنگ و نسل بلا فرقہ پرستی صرف آخری نبی پیارے حضرت محمدﷺ کی شان ان کی آن ان کی حرمت کیلیۓ آئیے مل کر باہر نکلیں ـ زنجیر ایسی بنائیں جو ایوانِ صدر تک جا پہنچے اور وہاں سے پیغام امتِ مسلمہ کو پہنچے اورخوابِ غفلت میں پڑے ہوئے یہ امراء جاگیں ایک کانفرنس کا فوری

طور پے انعقاد کریں اور دنیا کو بتا دیں کہ””
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی “”

بہت ضرورت ہے اس وقت ایسے کسی اہم اسلامی کاوش کی میں درخواست کروں گی تمام دانشوروں سے تمام محققین سے تجزیہ کاروں سے نقادوں سے اصلاح کاروں سے خدارا !! اس سادہ قوم کے آگے کھڑے ہو کر ان کے جنون کو ان کے احتجاج کو درست سمت دیں ان کی تحریک کو آگے بڑھ کر اپنے شعور اپنے فلسفے اپنے اطوار سے پہلی بار تاریخی حیثیت دیں اور اس بار ماضی کی طرح چند روز نعرہ بازی کر کے ٹی وی پے بیانات دے کر سیاسی مذہبی حیثیت کو کیش نہ کریں بلکہ تاریخ میں زندہ رہنے کیلیۓ اپنا بحیثیت مومن کردار ادا کریں ـ

اگر اس بار بھی ایسا نہ کیا گیا تو میں ذاتی طور پے یہ سمجھنے پے مجبور ہو جاؤں گی کہ بے غیرت مفاہمتی پالیسی کے تحت
ہم لوگ سیاسی غیرت سے تو کنارہ کش ہو چکے ـ اگر آج ان تجاویز کو سنجیدگی سے اہلِ فکرو دانش نے نہ لیا تو میں سمجھنے پے مجبور ہو جاؤں گی کہ ہم لوگ مذہبی غیرت سے بھی سبکدوش ہونے جا رہے ہیں وقت نازک ہے ـ آج کوئئ فیصلہ آپ سب نے اس ملک کے حاکم سے کروانا ہے ـ اور اس نے دیگر ممالک کے قائدین کو مجبور کرنا ہے اس روز روز کی دل آزاری کا کوئی مستقل پائیدار حل نکلنا چاہیے جو صرف امت محمدی کے اتحاد اتفاق میں مضمر ہے ـ

خدارا اپنی طاقت کو مظاہروں کی نذر نہ کریں بلکہ درست سمت میں اپنے اکابرین کی سوچ کا تعاقب کریں ان کی معیت میں نئی تاریخ بنائیں اس کے سوا کوی چارہ نہیں ہے ورنہ آج کے بعد کل اس سے بڑھ کر غلاظت کا مظاہرہ کیا جائے گا ـ احتجاج کریں لیکن اپنے ہدف کو حاصل کرنا ہے یہ سوچ کر صرف ہر بار ایسے شیطانی واقعات کے سامنے آنے کے بعد لکیر پیٹتے ہوئے ہنگامہ آرائی کرنا ہمیں اسلام دشمن قوتوں کے سامنے ایک مذاق بنا دیتا ہے کہ یہ لوگ چند روز بعد پہلے کی طرح خاموش ہو جائیں گے ـ

اسلامی ممالک میں جو بیداری شعور کی نئی لہر جاگی ہےـ بے حمیت حکمران عازم سفر ہوئے اب تازہ افکار ہیں جو غیور نظام کے مظہر ہیں ـ اب لکیر نہیں پیٹنی ہے نہ ہی چند روزہ احتجاج کر کے خاموش ہونا ہےـ اس بار اس ملعون کو کیفرِ کردار تک پہنچانا ہے ـ ناپاک جسارت تاریخ میں آخری جسارت ہونی چاہیے ـ اہل فکر و نظر سامنے آئیں اسلام کا دفاع کریں علمائے کرام کی سرکردگی میں پوری قوم بلا رنگ و نسل بلا تفریق اکٹھے ہو کر نئی تاریخ رقم کریں ـ کیا ایسا ہو سکے گا؟ ہر بار کی طرح لکیر نہیں پیٹتے رہنا ـ اس بار حتمی تاریخی حل نکالا جانا چاہیے ـ ورنہ اس سے بد تر مظاہرہ دیکھنے کیلئے تیار رہنا ہوگا ـ

مسلمان کا فلسہ مسلمان کا اعتقاد بس ایک ہے وہ ہے

کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوحِ و قلم تیرے ہیں

تحریر: شاہ بانو میر